سردی‘ اسموگ اور بارش

401

ہمیں یاد ہے کہ سردیاں ایک زمانے میں وسط اکتوبر سے شروع ہوجاتی تھیں‘ دھوپ میں نرمی آجاتی تھی اور پُرلطف ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگتی تھیں، ڈیڑھ پسلی کے لوگ جنہیں سردی زیادہ لگتی ہے فوراً سوئٹر اور اونی ٹوپی نکال لیتے تھے اور سردی آنے کا اعلان کردیتے تھے۔ قیام پاکستان سے پہلے تو گرمی اور سردی میں سرکاری دفاتر کے اوقات کار بھی مختلف ہوا کرتے تھے، گرمیاں سرکاری طور پر وسط اپریل سے شروع ہوتی تھیں اور سرکاری دفاتر، عدالتیں اور تعلیمی ادارے صبح سات بجے لگتے تھے اور یہ سلسلہ وسط اکتوبر تک جاری رہتا تھا جونہی کیلنڈر پر اکتوبر کی پندرہ تاریخ نمودار ہوتی سرکاری سطح پر موسم سرما کی آمد کا اعلان کردیا جاتا، سرکاری دفاتر، عدالتوں اور تعلیمی اداروں کے اوقات کار تبدیل ہوجاتے اور وہ صبح سات کے بجائے آٹھ بجے لگنے لگتے۔ یہ سلسلہ پاکستان بننے کے بعد بھی مدتوں چلتا رہا پھر شاید جنرل ایوب خان کے زمانے میں یہ دو رنگی ترک کردی گئی اور گرمی ہو یا سردی اوقات کار صبح آٹھ بجے سے شام چار بجے مقرر کردیے گئے۔ خیر اوقات کار کا ذکر تو ضمناًآگیا، بتانا یہ مقصود ہے کہ پہلے سردیاں وسط اکتوبر سے شروع ہوجاتی تھیں لیکن اب کتنے ہی سال گزر گئے پورے اکتوبر گرمی کا راج رہتا ہے، سورج آگ برساتا نظر آتا ہے اور پسینہ خشک ہونے کا نام نہیں لیتا۔ لیجیے صاحب یہ مشکل دن بھی کٹ ہی گئے اب نومبر ہے اور نومبر بھی آدھے سے زیادہ گزر گیا ہے کیا اب بھی سردیاں نہیں آئیں گی؟ سچ پوچھیے تو ہم جس نیم پہاڑی علاقے (کہوٹہ) میں رہتے ہیں وہاں سردی پورے طمطراق کے ساتھ آگئیہے، ٹھنڈی ہوائیں چل رہی ہیں، آسمان پر بادل چھا گئے ہیں اور آج نہیں تو کل بارش تُلی کھڑی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ بارش کم و بیش ڈیڑھ مہینے سے نہیں ہوئی، پوری فضا گرد آلود ہے، سڑکوں پر گرد اڑ رہی ہے، درختوں کے پتے گرد سے اٹے ہوئے ہیں، سبزہ مرجھا گیا ہے، پھول اور پودے بے جان ہوگئے ہیں، سانس لو تو مٹی کے ذرات ناک کے راستے حلق میں اُتر جاتے ہیں، بارش بھی کیا اللہ کا انعام ہے آسمان سے برستی ہے تو آن کی آن میں فضا کو نکھار دیتی ہے، مردہ زمین جی اُٹھتی ہے، سبزے پر بہار آجاتی ہے، درخت خوشی سے جھومنے لگتے ہیں، پھول اور پودوں میں زندگی جاگ اُٹھتی ہے، ہاں یاد آیا کہ اس وقت کھیتوں میں بھی خاک اَڑ رہی ہے، بارانی علاقوں میں فصلوں کا تمام تر انحصار بارش پر ہوتا ہے، سب سے اہم اور نقد آور فصل گندم کی ہے جس کی بوائی اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں ہوجاتی ہے، زمین میں نم ہو تو بیج پھوٹ پڑتے ہیں اور کھیت ننھے ننھے پودوں سے بھر جاتا ہے لیکن ان پودوں میں جان بارش سے آتی ہے ورنہ یہ مرجھانے لگتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بارانی علاقے کا کسان کھیت تیار کرکے اپنی نظریں آسمان پر گاڑ دیتا ہے کہ کب بارانِ رحمت کا نزول ہو اور اس کی محنت ٹھکانے لگے۔ قدرت اپنی مخلوق کو مایوس نہیں کرتی البتہ انتظار ضرور کراتی ہے، جو لوگ انتظار کے دوران اُمید کا دامن نہیں چھوڑتے وہی کامیاب قرار پاتے ہیں۔ کسان اپنے ربّ سے کبھی مایوس نہیں ہوتا وہ اسی کے بھروسے پر ہل چلاتا اور بیج بوتا ہے، پھر جلد یا بدیر اس کی اُمید برآتی ہے، آسمان سے پانی برستا ہے اور کھیتوں میں ہریالی اپنا رنگ جمانے لگتی ہے۔
لیجیے صاحب یہیں تک لکھ پائے تھے کہ بارش کی خبریں بھی آگئیں۔ پنجاب میں لاہور سمیت مختلف شہر جو اسموگ کی زد میں آئے ہوئے تھے انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہے، آسمان سے نازل ہونے والی پانی کی پھوار نے اسموگ کی ساری کثافت دھو کر رکھ دی ہے، یہ اسموگ کیا ہے؟ ابھی چند سال پہلے تک تو اس کا نام و نشان بھی نہ تھا لیکن پچھلے سال اس کا خوب چرچا ہوا۔ بتایا گیا کہ پنجاب کے مختلف شہروں میں موسم سرما کے آغاز پر فضا میں جو دُھند (FOG) چھا جاتی ہے اور جس کے نتیجے میں حدِ نگاہ صفر ہو کر رہ جاتی ہے اس میں کارخانوں اور فیکٹریوں کا زہریلا دھواں (SMOKE) بھی شامل ہوگیا ہے جس سے آنکھ، ناک اور گلے کی بیماریاں پیدا ہورہی ہیں اور شہری بیمار پڑ گئے ہیں۔ یہ بالکل نئی صورت حال تھی کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ دھوئیں اور دھند کے اس ملغوبے کو کیا نام دیا جائے۔ اردو والے سوچتے ہی رہ گئے لیکن انگریزی دانوں نے اسموک اور فوگ کو ملا کر نیا لفظ گھڑلیا ’’اسموگ‘‘ انگریزی ڈکشنری ہر سال اپ ڈیٹ ہوتی رہتی ہے۔ پرانی ڈکشنری میں تو یہ لفظ نہیں ہے، نئے سال کی ڈکشنری میں یقیناًاسے شامل کرلیا جائے گا، ہمارے دوست کہہ رہے تھے کہ اسموگ کا کوئی اردو متبادل بھی ہونا چاہیے پھر خود ہی بولے ’’اندھا دھند‘‘ کیسا رہے گا۔ ہم نے جواب دیا لاحول ولاقوۃ یہ لفظ تو پہلے ہی ہمارے ہاں مستعمل ہے اور بغیر سوچے سمجھے کام کرنے کے معنوں میں بولا جاتا ہے۔ اسموگ نیا لفظ ہے اردو میں بھی اس کا متبادل کوئی نیا لفظ ہونا چاہیے۔ یہ کام اہل لغت اور ماہرین لسانیات کا ہے کہ وہ اسموگ کا اردو متبادل لائیں لیکن ہمارا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوگا۔ اردو دوسری زبانوں کے الفاظ اچکنے میں بڑی مہارت رکھتی ہے، عربی، فارسی، ہندی، انگریزی۔ ان سب زبانوں کے بکثرت الفاظ اردو میں موجود ہیں اب اگر اردو نے اسموگ کو بھی اپنالیا تو اس پر کسی کو تعجب نہیں ہوگا۔ اردو میڈیا نے تو اس لفظ کو رواج دے ہی دیا ہے اب اردو ذرائع ابلاغ میں اس کا کوئی متبادل پنپ نہیں سکے گا۔
بارش نے اسموگ کا کام تمام کردیا ہے، پنجاب کے جو شہر اسموگ کی زد میں تھے انہوں نے سکھ کا سانس لیا ہے، فضا نکھر گئی ہے اور فضائی آلودگی کے سبب جو بیماریاں پیدا ہوئی تھیں وہ بھی دم توڑ رہی ہیں، البتہ سردی چمک اُٹھی ہے، ابھی ایک ماہ پہلے تک آگ برساتا سورج اہل زمین پر مہربان ہوگیا ہے، اس کی نرم اور کومل دھوپ بدن کو اچھی لگنے لگی ہے۔ جی چاہتا ہے کچھ دیر دھوپ میں بیٹھیں اور اس کا لطف اُٹھائیں۔ اب تو شہروں کا کلچر ہی بدل گیا ہے، جدید طرز کی بستیوں میں مونگ پھلی، ریوڑی اور گجک بیچنے والوں کا گزر ہی کہاں ورنہ ایک زمانہ تھا کہ موسم سرما کی پہلی پھوار پڑتے ہی گلی محلوں میں چھابڑی والوں کی آوازیں گونجنے لگتی تھیں جو اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ سردی آگئی اور سردی کی سوغاتیں بھی آگئی ہیں۔ ان سوغاتوں میں سری پائے، نہاری، گاجر کا حلوہ، کشمیری چائے اور طرح طرح کے کھانے شامل تھے۔ ہاں یاد آیا سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی بھی موسم سرما کا خاص تحفہ تھی۔ یہ ساری چیزیں اب بھی موجود ہیں اور سردی میں خاص لطف دیتی ہیں لیکن زمانہ بہت بدل گیا ہے اب دیسی کھانوں اور سوغاتوں کی جگہ برگر، پیزے اور فاسٹ فوڈز کے دیگر آئٹموں نے لے لی ہے، یہ سب کچھ کلچر کی تبدیلی ہے اور پاکستان اسی تبدیلی کی زد میں ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ موسم کا چکرا (CYCLE) بھی بدل رہا ہے، گرمی کا دورانیہ بڑھ رہا ہے، سردی کا دورانیہ گھٹ رہا ہے، ماہرین کہتے ہیں کہ زمین کی حدت میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے یہ سب قربِقیامت کی نشانیاں ہیں۔