انسانی اعضا سے لے کر ٹریفک پلوں تک تھری ڈی پرنٹنگ انقلاب برپا کرنے کے لیے تیار

508

سائنس ڈیسک
ایرک گیٹن ہوم نے مسکراتے ہوئے تھری ڈی پرنٹر کا بٹن دبایا۔ دراصل وہ ایک انسانی ناک پرنٹ کرنا چاہتے تھے۔ آدھے گھنٹے کی سرگرمی کے دوران پرنٹر کی باریک سوئی ایک چھوٹی سی ڈش کے گرد پہلے سے پروگرام کی ہوئی ہدایات کے مطابق گھومتی اور نیلی روشنائی بکھیرتی رہی۔
یہ عمل کسی جدید ترین سلائی مشین سے مشابہ لگتا ہے جو کسی کپڑے پر نفیس کڑھائی کر رہی ہو۔ لیکن جلد ہی ایک کچھ مانوس ابھار نمایاں ہونے لگے اور شیشے سے ایک ناک ابھر آئی جو تیز روشنی میں چمک رہی تھی۔ یہ ناک اصل انسانی خلیوں سے تعمیر کی گئی تھی۔
یہ مشین کسی سائنس فکشن فلم کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ عمل تھری ڈی بائیو پرنٹنگ کہلاتا ہے۔ فی الحال اس ٹیکنالوجی کو جلد کے خلیے بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے تاکہ ان پر جلد کے امراض کی ادویات اور کاسمیٹکس کے تجربات کیے جا سکیں۔
ایرک سمجھتے ہیں کہ اگلے 20 برس کے اندر تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے انسانی اعضا تیار کیے جا سکیں گے جنھیں جسموں کے اندر ٹرانسپلانٹ کیا جا سکے گا۔
28 سالہ ایرک سویڈن کی ایک چھوٹی سی کمپنی ’سیل لنک‘ کے بانی اور چیف ایگزیکٹیو ہیں۔ صرف ایک سال کے اندر یہ کمپنی دنیا بھر میں حیاتیاتی مواد کی پرنٹنگ کے سلسلے میں اول نمبر پر آ گئی ہے۔
وہ کہتے ہیں: مقصد سادہ سا ہے کہ طب کی دنیا کو تبدیل کر دیا جائے۔ ہمارا تصور یہ ہے کہ ہماری ٹیکنالوجی دنیا کی ہر تجربہ گاہ میں استعمال کی جائے۔
ایرک نے 3 سال پہلے اپنے والد سے تھری ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی کے بارے میں سنا تھا، جو سویڈن کے شہر گوتھن برگ میں واقع چالمرز یونیورسٹی میں کیمسٹری کے پروفیسر ہیں۔
ایرک نے بزنس کی تعلیم حاصل کی تھی۔ انھیں احساس ہوا کہ دنیا میں بایو ِنک یا حیاتیاتی روشنائی کی خاصی مارکیٹ موجود ہے۔ سیل لنک میں یہ خصوصی روشنائی سویڈن کے جنگلات سے حاصل ہونے والے سیلولوز اور ناروے کے سمندر سے نکالی جانے والی بحری گھاس سے تیار کی جاتی ہے۔ اس روشنائی کے اندر انسانی خلیوں کا آمیزہ بنا کر انھیں تھری ڈی پرنٹ کیا جا سکتا ہے۔
2014ء تک یہ بایونک ہر ادارے کو خود بنانا پڑتی تھی اور کہیں سے خریدی نہیں جا سکتی تھی۔ ایرک کی کمپنی سیل لِنک دنیا کی واحد کمپنی ہے جو یہ بایو اِنک فروخت کرتی ہے اور اسے آن لائن بھی خریدا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ وہ سستے تھری ڈی پرنٹر بھی فروخت کرتی ہے۔
ایرک کو یہ کمپنی بنانے کا خیال 2015ء میں آیا جب ان کی عمر صرف 25 سال تھی۔ اسی سال انھوں نے چالمرز یونیورسٹی میں ٹشو انجینئرنگ کے طالب علم ہیکٹر مارٹینیز کے ساتھ مل کر سیل لنک کی داغ بیل ڈالی۔
جلد ہی اس کمپنی نے کئی سرمایہ کاروں کی توجہ حاصل کر لی اور 10 ماہ کے اندر یہ نیسڈیک اسٹاک ایکس چینج تک پہنچ گئی جہاں اس کی مالیت 1.68کروڑ ڈالر لگائی گئی۔ کمپنی نے پہلے ہی سال 15 لاکھ ڈالر کی اشیا فروخت کیں اور اب اس کے 30 ملازمین ہیں اور اس نے امریکا میں بھی دفتر کھول لیا ہے۔
کمپنی کے صارفین میں تحقیقی ادارے اور یونیورسٹیوں کے علاوہ دوا ساز کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ یہ کمپنیاں انسانی جلد بنا کر اس پر تجربات کرتی ہیں تاکہ انسانوں پر کیے جانے والے تجربات کی مشکلات سے بچا جا سکے۔ سیل لنک کا طویل مدت ہدف ٹرانسپلانٹ کے لیے دستیاب انسانی اعضا کی موجودہ کمی کو دور کرنا ہے۔
بہت سے ماہرین کا خیال ہے کہ بایوپرنٹنگ کی مدد سے 10سے 20 سال کے اندر انسانی اعضا تیار کیے جا سکیں گے جنھیں جسم کے اندر لگایا جا سکے گا۔
اس سلسلے میں کئی اخلاقی سوال بھی اٹھتے ہیں لیکن ایرک کہتے ہیں کہ سیل لنک کئی اداروں کی مشاورت سے کام کر رہی ہے اور اس سلسلے میں صحت اور تحفظ کے معیارات کا ہر ممکن خیال رکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس پر یقین رکھتا ہوں۔ یہ میری آرزو ہے۔ میں اسی کے لیے زندہ ہوں مجھے اس پر کوئی پچھتاوا نہیں ہو گا۔
آیئے! اب چلتے ہیں دبئی کی جانب جہاں روڈ اینڈ ٹرانسپورٹ اتھارٹی (آر ٹی اے) نے اعلان کیا ہے کہ وہ پیدل چلنے والوں کے پل، بس اسٹاپ اور سمندر میں واقع ٹرانسپورٹ اسٹیشن بنانے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ کی ٹیکنالوجی استعمال کرے گی۔ ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق یہ دبئی حکومت کی جانب سے شہر کو اسمارٹ سٹی بنانے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
اس مقصد کے لیے دبئی کی حکومت نے جرمن کمپنی سیمنز کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔ مفاہمت کی یادداشت کے مطابق تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے تعمیرات میں استعمال ہونے والے حصوں کی دستیابی آسان ہو جائے گی، وہ جلد ٹوٹ پھوٹ کا شکار نہیں ہوں گے، اور انھیں زیادہ بہتر طریقے سے ڈیزائن کیا جا سکے گا۔
‘اس سے دبئی کے تین برس کے اندر دنیا کا سب سے سمارٹ شہر بننے کے عزم کو تقویت ملے گی، جس سے دبئی کے شہری اور سیاح مزید خوش و خرم اور مطمئن ہوں گے۔
دبئی کے ریل پروجیکٹ پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر عبدالردا عبدالحسن نے کہا: تھری ڈی پرنٹنگ ٹیکنالوجی دنیا بھر میں تیزی سے پھل پھول رہی ہے اور آر ٹی اے اس ٹیکنالوجی کے استعمال میں سرِ فہرست رہنا چاہتی ہے۔
دبئی کے علاوہ ابوظہبی میں بھی تھری ڈی پرنٹنگ پر کام ہو رہا ہے۔ چند ماہ قبل یہ خبر سامنے آئی تھی کہ اتحاد ایئر ویز سیمنز کے ساتھ مل کر اپنے طیاروں کے اندر کا حصہ تھری ڈی پرنٹنگ کی مدد سے بنانے پر کام کر رہے ہیں۔
یاد رہے کہ اکتوبر میں نیدرلینڈز میں دنیا کے پہلے تھری ڈی سے بنے پُل کا افتتاح کیا گیا تھا۔ یہ پُل صرف 26 فٹ لمبا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اس کی تعمیر میں تین ماہ لگے۔
حکام کا کا مزید کہنا ہے کہ تھری ڈی سے بنے اس پُل کا فائدہ یہ ہے کہ عام طریقے سے تعمیر پُل کے مقابلے میں اس میں سیمنٹ بہت کم لگا ہے۔ تھری ڈی صرف اس وقت سیمنٹ جمع کرتا ہے جب ضرورت ہوتی ہے۔ حکام کا مزید کہنا ہے کہ یہ پُل دو ٹن تک کا وزن برداشت کر سکتا ہے۔