مفتی منیب الرحمن
’’ تعلیماتِ امام احمد رضا‘‘ اور ’’اعراسِ مبارکہ‘‘ کے عنوان سے ہمارے گزشتہ دو کالموں کو ہمارے اپنے فیس بک پیج پر اور مختلف ویب سائٹس پر اہلسنّت وجماعت سمیت دیگر مکاتبِ فکر کے لوگوں نے لاکھوں کی تعداد میں پڑھا، بیش تر نے اِسے اپنے احباب کو بھی بھیجا، جسے آج کل Shareکرنا کہتے ہیں۔ بڑی تعداد میں اہلِ علم اور دین سے محبت رکھنے والے حضرات نے ہماری حوصلہ افزائی فرمائی، دیگر مکاتبِ فکر کے لیے اہلسنّت وجماعت کے مسلک کی صحیح تعبیر چشم کشا ثابت ہوئی، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ علیٰ ذٰلک، یہی ہمارا مقصود ومُدَّعیٰ تھا۔ بہت سے لوگ ہمارے مسلک کو اصل مآخذ سے پڑھنے کی زحمت نہیں فرماتے اور سنی سنائی باتوں یا بعض جاہل پیروں اور واعظین کے طور طریقوں کو دیکھ کر رائے قائم کرکے اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہوجاتے ہیں، فیض احمد فیض نے کہا تھا:
وہ بات، سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا
وہ بات، اُن کو بہت ناگوار گزری ہے
چراغ حسن حسرت نے ہمارے درد کو اس شعر میں بیان کیا تھا:
غیروں سے کہا تم نے ،غیروں سے سنا تم نے
کچھ ہم سے کہا ہوتا ،کچھ ہم سے سنا ہوتا
شاہد لطیف ملک صاحب نے بذریعہ ای میل خواجہ نظام الدین اولیاءؒ کی کتاب ’’فوائد الفُؤاد‘‘کے حوالے سے لکھا ہے:
’’ حضرت سجدہ تعظیمی کوناپسند کرتے تھے ،لیکن اپنے شیخ کی اتباع میں معتقدین کواس پر ٹوکتے نہیں تھے اور وہ کہتے تھے: ’’میں رسول اللہ ؐ کی چوکھٹ کو بوسا دینے سے کیسے منع کروں ‘‘۔اس کی بابت ہم احمد رضا قادری کے حوالے سے لکھ چکے ہیں: ’’مزار کو بوسا دینے میں علماء کا اختلاف ہے ،یعنی بعض اپنے دلائل سے جواز کے قائل ہیں، لیکن عوام کے لیے محتاط ترین شرعی حکم یہی ہے کہ انہیں منع کیا جائے، کیوں کہ اس روش کی انتہا سجدۂ تعظیمی پر ہوتی ہے ‘‘۔
پس مقاصدِ شرعیہ میں سے ایک ’’سَدِّ ذرائع‘‘ ہے اور آج جب ہم اپنے دور میں ابتذال کو دیکھتے ہیں تو اس کی حکمت واہمیت ہمیں آفتابِ نصف النہار کی طرح روشن نظر آتی ہے ۔مزار کی چوکھٹ کو بوسا دینے سے امام اہلسنّت نے منع نہیں فرمایا، کیوں کہ اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں ہے ۔لیکن روضۂ رسول کی جالیوں یا چوکھٹ کو بوسا دینے سے منع فرمانے کی حکمت اس کا حرام، مکروہِ تحریمی یا بدعت ہونا نہیں بتایا،بلکہ اسے انہوں نے آدابِ بارگاہِ نبوت کے خلاف کہا ہے ،کیونکہ وصال مبارک کے بعد بھی سیدنامحمد رسول اللہ ؐ کی بارگاہ میں حاضری کے وہی آداب ہیں ،جو آپ کی حیاتِ مبارکہ میں تھے اور اس کی بابت ہم گزشتہ کالم میں لکھ چکے ہیں۔ ہم بے شعور بچے یا نابینا یافاتر العقل کو آگ یا تیز چھری یا گہرے گڑھے کے قریب جانے سے اس لیے نہیں روکتے کہ اس جگہ جانا منع ہے ، بلکہ اس لیے روکتے ہیں کہ یہ لوگ آگ میں جل سکتے ہیں ،کسی تیز دھار آلے سے کٹ سکتے ہیں یا بے احتیاطی سے گہرے گڑھے میں گر سکتے ہیں۔پس جہالت کی آگ یا گہرے گڑھے میں گرنے سے بچانا علمائے ربانیین کی ذمے داری ہے اور شریعت کا تقاضا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبِ مکرم ؐ کی بعثت کا ایک مقصدِ جلیل یہی تو بتایا ہے :’’اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کروجو اس نے تم پر فرمائی، جب کہ تم باہم دشمن تھے (اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے )، پس اس (نعمتِ عظمیٰ) نے تمہارے (ٹوٹے ہوئے) دلوں کو جوڑ دیا ، سو تم اس کی نعمت کے تصدُّق (آپس میں )بھائی بھائی بن گئے اور (ذرا یاد کرو)تم آگ کے گڑھے کے کنارے تھے(اور اس میں گراہی چاہتے تھے )کہ اس نے تمہیں (اس میں گرنے سے) بچالیا، اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیوں کو بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ، (آل عمران:۱۰۳)‘‘۔
نبی کریم ؐ نے فرمایا: ’’میری اورلوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے، جس نے آگ جلائی ،پس جب آگ نے اردگرد روشن کردیا تو آگ پر گرنے والے پروانے اور کیڑے مکوڑے اس میں گرنے لگے اور آگ جلانے والا اس میں سے انہیں نکالنے لگا اور وہ پروانے اور کیڑے مکوڑے اس پر غالب آگئے اور وہ آگ میں داخل ہوگئے۔ پس میں بھی تمہیں کمر سے پکڑ کر آگ سے نکال رہا ہوں اوروہ اس آگ میں گرے جارہے ہیں ،امام مسلم نے ان الفاظ کا اضافہ کیا ہے: ’’میں تمہاری کمر پکڑ کر تم کو جہنم میں جانے سے روک رہا ہوں اور کہہ رہا ہوں:(آگ سے بچو اور) جہنم سے دورہوجاؤ اور تم لوگ میری بات نہ مان کر جہنم میں گرے جارہے ہو، (بخاری،مسلم)‘‘۔
بعض لوگ ’’سجدۂ تعظیمی ‘‘کے حوالے سے فرشتوں کے آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے اور سیدنا یوسف علیہ السلام کے والدین کریمین اوربرادران کے انہیں سجدہ کرنے کا حوالہ دیتے ہیں ۔ اُن کی خدمت میں گزارش ہے کہ گزشتہ شریعتوں کی جو بات ہماری شریعت کے خلاف ہو،اسے ہم اختیار نہیں کریں گے ۔ہمارے نزدیک سجدۂ تحیّت سیدنا آدم اور سیدنا یوسف علیہما السلام کے ساتھ خاص تھا اور بعض مفسرین کرام نے یہ توجیہ کی ہے کہ انہیں مسجود مان کر سجدے کا حکم نہیں دیا گیا، بلکہ کعبۃ اللہ کی طرح ان کی حیثیت جہتِ سجدہ کی تھی۔ لیکن دو ٹوک بات یہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اللہ ؐ کی شریعت میں سجدۂ تعظیمی جائز نہیں ہے ،بعض لوگ ایسے امور میں بعض بزرگوں کے تفرُّدات کا حوالہ دیتے ہیں ،ہم شریعت کے مقابل ان تفرّدات کو نہ اختیار کریں گے اور نہ ان کی حوصلہ افزائی کریں گے، البتہ چوں کہ وہ صاحبانِ علم تھے ،اس لیے ان کے بارے میں سکوت اختیار کریں گے۔ ’’فوائد الفؤاد‘‘میں شیخ ابوسعید ابوالخیر کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے زمین پر بوسا دینا پسند نہیں فرمایا،(ص:216)‘‘۔
شیخ المشایخ سید اشرف جہانگیر سمنانی کے ملفوظات میں ہے: ترجمہ:’’مشایخِ کرام کے سامنے پیشانی زمین پر رکھنے کوبعض مشایخ نے جائزقرار دیا ،لیکن اکثر مشایخ نے اس کا انکار کیا ہے اور اپنے اصحاب کو اس سے منع فرمایا کہ سجدۂ تحیّت پہلی امتوں میں جائز تھا، اس امت میں منسوخ ہے ،(لطائف اشرفیہ، لطیفہ :70)‘‘۔ امام احمد رضا لکھتے ہیں:’’جب جمہور اولیاء ممانعت پر ہیں اور اکثر کے لیے حکمِ کُل ،تو اجماعِ اولیاء تحریم پر ہوا ،اجماع کے مقابل کوئی سند معتبر نہیں ہے،(فتاویٰ رضویہ)‘‘۔
الحمد للہ !ملک اور بیرونِ ملک سے چالیس سے زائد اکابر علمائے کرام ومشایخ عِظام کی تصدیقات وتائیدات کے ساتھ ہماری کتاب ’’اصلاحِ عقائد واعمال‘‘ طبع ہوچکی ہے اور اس کی بہت پزیرائی ہورہی ہے، ابھی بعض دیگر مسائل پربھی اہلسنّت کامسلّمہ موقف بیان کرنا ہے ، ان شاء اللہ العزیز اگلی جلد بھی یقیناًآئے گی۔ جن کے مفادات پر زَد پڑتی ہے ، ان کا بے چین ہونا لازم ہے، اس سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے، ہم نے ’’اصلاحِ عقائد واعمال‘‘ میں انہی امور کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’بعض لوگ گزشتہ مسلّم بزرگ شخصیات کی عبارات پر گرفت کرنے کے شوق میں مبتلا ہیں، انہیں ان عبارات کے مرادی معنی پر آگاہی نہیں ہوتی ۔ ایسی عبارات کے بارے میں حُسنِ ظن سے کام لیتے ہوئے شریعت کی رُو سے ان کی قابلِ قبول توجیہ کرنا لازم ہے۔ پس مسلّمہ بزرگ شخصیات کی ذات پربلاسبب طعن کرنا ناپسندیدہ ہے اور اگر بالفرض ان کی عبارات کی کوئی صحیح تاویل ممکن نہ ہو تو اسے اُن کی طرف منسوب کرنے کے بجائے بعد والوں کا الحاق قرار دیا جائے گا اور ملفوظات کی ذمے داری ناقل پر عائد ہوتی ہے۔
فتاویٰ امجدیہ میں علامہ امجد علی اعظمی نے مولانا آسی کے ایک شعر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ عالم کے کلام کو غیر عالم کے کلام پر قیاس نہ کیا جائے ،وہ لکھتے ہیں:’’یہ شعر کسی بے باک زبان دراز کا کلام نہیں ،جس کی عادت ایسی ہو کہ جو جی میں آئے بک دے ، بلکہ ایک واقفِ شریعت کی طرف منسوب ہے،لہٰذا حتی الامکان اُس کی تاویل کی جائے گی اور کلام کو ظاہر پر محمول نہیں کیا جائے گا، (فتاویٰ امجدیہ،جلد چہارم، ص:279)‘‘۔ احمد رضا خان قادری نے عام ،گمنام اور بے ہودہ لوگوں کے اشعار کے مطالب پوچھنے پر ناگواری کا اظہار کرتے ہوئے ایک سوال کے جواب میں لکھا:’’ایسے اشعار کا مطلب اُس وقت پوچھا جاتا ہے، جب معلوم ہو کہ قائل کوئی معتبر شخص تھا ،ورنہ بے معنی لوگوں کے ہذیان ہرگز قابلِ التفات نہیں ہیں، (فتاویٰ رضویہ)‘‘۔
امریکااور اہلِ مغرب نے ماضی قریب میں اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کے فریضے سے علمائے حق کو دستبردار کرنے اور ’’سب کچھ جائز ہے‘‘ کی روش کوقبولیت دینے کے لیے تصوف کی آڑ میں ایک شعوری تحریک برپا کی ،اِسی کو’’ صُلحِ کُلّی‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا مقصد گزشتہ تین عشروں سے جاری دہشت گردی کی آڑ لے کر مسلمانوں کو جہاد کے اصول سے دستبردارکرنا تھا۔ ہم نے روزِ اول سے ان باطل تحریکات کی برملا مخالفت کی ہے ،لیکن شرعی جہاد ہمارے عقیدے اور دین کا حصہ ہے ،اُس کی تفصیلی شرائط فقہ کی کتابوں میں مذکور ہیں۔ یہ اصول بھی ناقابلِ تسلیم ہے کہ صرف وہ یہودی اور عیسائی کافر تھے، جنہوں نے نبی کریمؐکے زمانے میں آپ کی دعوت پر لبیک نہیں کہا، بعد والے یہود و نصاریٰ کافر نہیں، یہ بھی تلبیسِ ابلیس ہے۔اسی طرح عالمی سطح پر یہ تقسیم کہ مطلق کفار ومشرکین ایک زُمرے میں ہیں،یعنی وہ Non Believers ہیں، جب کہ اہلِ کتاب یعنی یہود ونصاریٰ Believersہیں، یعنی اہلِ ایمان کے زُمرے میں شامل ہیں۔یہ تعبیر وتشریح قرآنِ مجید کی صریح اور قطعی آیات کے خلاف ہے، اس لیے قابلِ قبول نہیں ہے۔قرآنِ کریم کی’’ سُوْرَۃُ الْبَیِّنَۃِ:1و6،المائدۃ:72-73‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے اہلِ ایمان کے مقابل اہلِ کتاب کو کافر قراردیا ہے، ظاہر ہے جو ختم المرسلین ؐ اور قرآن کا انکار کرے ،اُسے کیسے صاحبِ ایمان قرار دیا جاسکتا ہے، یہی امت کا اجماعی عقیدہ ہے ، (اصلاحِ عقائد واعمال)‘‘۔