صحت کے آداب

545

قبیلۂ باہلہ کی ایک خاتون حضرت مجیبہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ایک بار میرے ابا نبی ﷺ کے یہاں دین کا علم حاصل کرنے کے لیے گئے اور (دین کی کچھ اہم باتیںمعلوم کر کے ) گھر واپس آگئے پھر ایک سال کے بعد دوبارہ آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ (تو نبی ﷺ انہیں بالکل نہ پہچان سکے ) تو انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ نبی ﷺ نے فرمایا’’ نہیں میں نے تو تمہیں نہیں پہچانا ۔ اپنا تعارف کرائو؟‘‘ انہوں نے کہا ۔’’ میں قبیلۂ باہلہ کا ایک فرد ہوں ۔ پچھلے سال بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا‘‘۔ تو نبی ﷺ نے کہا ’’ یہ تمہاری حالت کیا ہو رہی ہے!‘‘ پچھلے سال جب آئے تھے تب تو تمہاری شکل و صورت اور حالت بڑی اچھی تھی!‘‘ انہوں نے بتایا کہ جب سے میں آپ کے پاس سے گیا ہوں ۔ اس وقت سے اب تک برابر روزے رکھ رہا ہوں ، صرف رات میں کھانا کھاتا ہوں ۔ آپ نے فرمایا تم نے خواہ مخواہ اپنے کو عذاب میں ڈالا( اور اپنی صحت برباد کر ڈالی) پھر آپ نے ہدایت فرمائی کہ رمضان میںمہینے بھر کے روزے رکھو ، اور اس کے علاوہ ہر مہینے ایک روزہ رکھ لیا کرو‘‘ انہوں نے کہا ’’ حضور! ایک دن سے زیادہ کی اجازت دیجئے ۔ ارشاد فرمایا اچھا ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو۔ انہوں نے پھر کہا حضور کچھ اور زیادہ کی اجازت دیجئے ۔ آپ نے فرمایا۔ اچھا ہر مہینے میں تین دن ۔ ‘‘ انہوں نے کہا حضور کچھ اور اضافہ فرمایے ۔ ’’ آپ نے فرمایا‘‘ اچھا ہر سال محترم مہینوں میں روزے رکھو‘اور چھوڑ دو ۔ ایسا ہی ہر سال کرو۔‘‘ یہ ارشاد فرماتے ہوئے آپ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا ان کو ملایا پھر چھوڑ دیا ۔( اس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ رجب ، شوال ، ذی قعدہ ، اور ذالحجہ میں روزے رکھا کرو اور کسی سال ناغہ بھی کر دیا کرو) اور نبی ﷺ کا ارشاد ہے ۔ ’’ مومن کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ اپنے کو ذلیل کرے ۔‘‘لوگوں نے پوچھا مومن بھلا کیسے اپنے آپ کو ذلیل کرتا ہے؟ ارشاد فرمایا۔’’ وہ اپنے آپ کو نا قابلِ برداشت آزمائش میں ڈال دیتا ہے ۔ ‘‘(ترمذی)
4 ہمیشہ سخت کوشی ، جفا کشی ، محنت ، مشقت اور بہادری کی زندگی گزاریے ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کی عادت ڈالیے اور سخت جان بن کر سادہ اور مجاہدانہ زندگی گزارنے کا اہتمام کیجئے ۔ آرام طلب ، سہل انگار ، نزاکت پسند ، کاہل ، عیش کوش ، پست ہمت اور دنیا پرست نہ بنیے ۔
نبی ﷺ جب حضرت معاذ ابن جبل ؓ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجنے لگے تو ہدایت فرمائی کہ ’’ معاذ! اپنے کو عیش کوشی سے بچائے رکھنا ۔ اس لیے کہ خدا کے بندے عیش کوش نہیں ہوتے ۔ ‘‘(مشکوٰۃ)
اور حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا۔
’’سادہ زندگی گزارنا ایمان کی علامت ہے ۔‘‘(ابو دائود)
نبی ﷺ ہمیشہ سادہ اور مجاہدانہ ندگی گزارتے تھے اور ہمیشہ اپنی مجاہدانہ قوت کو محفوظ رکھنے اور بڑھانے کے لیے کوشش فرماتے تھے آپ تیرنے سے بھی دلچسپی رکھتے تھے اس لیے کہ تیرنے سے جسم کی بہترین ورزش ہوتی ہے۔ ایک بار ایک تالاب میں آپ اور آپ کے چند صحابی تیر رہے تھے ۔ آپ نے تیرنے والوںمیں سے ہر ایک کی جوڑی مقرر فرما دی ، کہ ہر آدمی اپنے جوڑ کی طرف تیر کر پہنچے چنانچہ آپ کے ساتھی حضرت ابو بکر صدیقؓ قرار پائے ۔ آپ تیرتے ہوئے ان تک پہنچے اور جا کر ان کی گردن پکڑ لی ‘
نبی ﷺ کو سواری کے لیے گھوڑا بہت پسند تھا ۔ آپ اپنے گھوڑے کی خود خدمت فرماتے اپنی آستین سے اس کا منہ پونچھتے اور صاف کرتے ۔ اس کی ایال کے بالوں کو اپنی انگلیوں سے بٹتے اور فرماتے’’بھلائی اس کی پیشانی سے قیامت تک کے لیے وابستہ ہے ‘‘۔
حضرت عقبہ ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا تیر چلانا سیکھو۔
گھوڑے پر سوار ہوا کرو ۔ تیر اندازی کرنے والے مجھے گھوڑوں پر سوار ہونے والوں سے بھی زیادہ پسند ہیں اور جس نے تیر اندازی سیکھ کر چھوڑ دی اس نے خدا کی نعمت کی نا قدری کی ‘‘۔(ابو دائود)
حضرت عبداللہ ابن عمر ؓ فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا۔
جس نے خطرے کے موقع پر مجاہدین کی پاسبانی کی اس کی یہ رات شبِ قدر سے زیادہ افضل ہے ۔ (حاکم)