تمباکونوشی صحت کے لیے زہر ہے‘ دماغی امراض میں اضافہ باعث تشویش ہے

856

65 فیصد والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کراتے
دنیا بھر میں 5 میں سے ایک شخص خوراک کی کمی کے باعث موت کا شکار ہو رہا ہے
نمونیا، ڈائریا، ہیپاٹائٹس اور کینسر سمیت مختلف امراض کے حوالے سے ڈاکٹرز سے خصوصی گفتگو
میاں منیر احمد ( اسلام آباد
پاکستان میں 65 فیصد والدین بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کراتے ‘ملک میں ہر سال نمونیا کی بیماری سے92ہزار بچے انتقال کر جاتے ہیں جو کہ خاصی تشویشناک صورتحال بن چکی ہے۔ پیدا ہونے والے 42فیصد بچے وزن کی کمی کا شکار ہوتے ہیں،71فیصد مائیں بچوں اپنا دودھ نہیں پلاتیں‘ مائوں کو چاہیے کہ پیدا ہونے والے بچے کو کم از کم 6 ماہ تک اپنا دودھ پلائیں۔ پمز اسپتال کے بچوں کے امراض کے ڈاکٹر محمد امجد نے جسارت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نمونیا کی بیماری نومولود او ر کمسن بچوں میں اموات کی دوسری اہم بڑی وجہ ہے۔ 47فیصد والدین اپنے بچوں کو نمونیا و ڈائریا سے بچاؤ کا ٹیکہ جبکہ 65 فیصد والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل ہی نہیں کراتے۔

5-2

ماں کا دودھ بچے کے لیے قدرتی ویکسین ہے، جس کا کوئی نعم البدل نہیں۔ پاکستان میں حفاظتی ٹیکوں کے پروگرام (ای پی آئی) میں پانچ سال قبل اکتوبر 2012ء میں نمونیا کی ویکسین شامل کی گئی لیکن 47 فیصد والدین بچوں کو نمونیا کی ویکسی نیشن جبکہ 65فیصد والدین اپنے بچوں کو حفاظتی ٹیکوں کا کورس مکمل نہیں کرواتے۔ محکمے کی جانب سے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق اسکریننگ کے دوران 40 ہزار 739 افراد میں ہیپاٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی ہے،اس مقصد کے لیے ایک لاکھ95 ہزار507 افراد کی اسکریننگ کی گئی۔ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص کے لیے 2 لاکھ 28 ہزار 795 افراد کے نمونے لیے گئے تھے،جن میں سے 7450افراد میں ہیپاٹائٹس بی کی تشخیص ہوئی۔رپورٹ کے مطابق ایچ آئی وی کی تشخیص کے لیے 2 لاکھ 35 ہزار 490 افراد کی اسکریننگ کی گئی،جن میں سے756افراد میں ایچ آئی وی کی بھی تصدیق ہوئی ہے۔ گزشتہ ماہ اکتوبر میں438 کیمپ لگائے گئے تھے۔

5-1
ڈاکٹر مظہر بادشاہ نے بتایا کہ تمباکو نوشی صحت کے لیے زہر اور تباہ کن ہے۔ گزشتہ سال ایک عالمی رپورٹ میں بتایا گیا کہ71لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے،اس کے علاوہ لوگوں کی بڑی تعداد کی صحت خوراک کی کمی اور ذہنی انتشار کے باعث خراب بھی ہوئی ہے۔ گلوبل برڈن آڈیزیز نامی ادارے کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال 2016ء کی ہلاکتوں کے اعداد شمارمیں بتایاگیا ہے کہ 130 ممالک میں 2500 ماہرین کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا بھر میں 5 میں سے ایک شخص خوراک کی کمی کے باعث موت کے منہ میں گیا اور صرف تمباکو نوشی کے باعث ہی 71 لاکھ افراد لقمہ اجل بن گئے ہیں۔ تحقیق میں بتایاگیاہے کہ دنیا بھر میں دہشت گردی میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اس کے علاوہ 2016ء میں تمباکو نوشی سے 71 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔دل کے عارضے میں مبتلا تقریباً ساڑھے 9 لاکھ افراد لقمہ اجل بنے۔
ڈاکٹر امجد نے بتایا کہ گزشتہ برس کے حاصل اعداد شمار میں دماغی امراض میں مبتلا افراد کی تعداد میں بڑی حد تک اضافہ دیکھا گیا اور تقریباً ایک ارب سے زائد افراد مختلف دماغی امراض کا شکار ہیںخون کے سرخ ذرات میں موجود ایک مادہ ہیموگلوبن ہے جس کے باعث ان ذرات کا رنگ سرخ ہوتا ہے۔ ہیموگلوبن کا سب سے اہم کام خون کے ذریعے تمام خلیوں کو آکسیجن پہنچانا ہے۔ ہیموگلوبن کی کمی یا خون کے سرخ ذرات کی کمی سے جسم میں آکسیجن پہنچانے کا کام بھی کم ہو جاتا ہے اور ’اینمیا‘ کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔ جسم میں فولاد یا آئرن کی کمی سے ہونے والا اینمیا ’آئرن ڈیفی شنسی اینمیا‘ کہلاتا ہے۔ جسم میں 30 فیصد آئرن ہڈیوں اور جگر تلی میں جمع رہتا ہے۔ آئرن غذا کے ذریعے روزانہ جسم میں داخل ہوتی ہے اور کمی ہونے پر جمع شدہ ذخیرے سے حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن اگر غذائی ذریعے سے پوری آئرن نہ ملے تو رفتہ رفتہ ذخیرہ ہی استعمال ہونے لگتا ہے اور یوں کم ہوتے جانے سے خون میں آئرن کی کمی ہو جاتی ہے، ہیموگلوبن نہیں بنتا اور سرخ ذرات اور ہیموگلوبن کم ہو جاتے ہیں، جسم کے خلیوں میں پوری مطلوبہ مقدار کی آکسیجن نہیں جاتی اور خلیوں میں آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔ ایسے میں کچھ مخصوص علامات ہوتی ہیں جیسا کہ پیلی رنگت، سانس پھولنا، سانس لینے میں دشواری، تھکن، سستی، چکر آنا، دل کی تیز دھڑکن، زبان کی سوجن، چھالے، ناخنوں کی پیلی رنگت یا چمکدار ناخن، یا ناخنوں کی چمچ جیسی شکل۔ آئرن کی کمی سے ہونے والے اینمیا کی تشخیص خون میں Iron, Hb CBC چیک کرنے سے ہو جاتی ہے۔ اس کی کمی کو پورا کرنے کے لیے غذا میں آئرن کا استعمال بڑھانا ضروری ہے اس کے بہترین ذرائع گوشت خاص کر کلیجی، مچھلی جیسا کہ سارڈین، سبز سبزی، پالک، ساگ، چقندر، امرود، سیب، لوبیا۔آئرن کی کمی پوری کرنے کے لیے کئی ادویات گولی شربت اور انجکشن کی صورت میں دستیاب ہیں۔ ان ادویات کے استعمال سے ابتدا میں بہت ہی ہلکا درد ہوتا ہے، پاخانے کا رنگ کالا ہو جاتا ہے۔ اس لیے مریض چند دن استعمال کے بعد دوا چھوڑ دیتا ہے۔ لیکن یہ درست نہیں۔ دوا کھانے کے بعد ہی تو علامات تھوڑی کم ہو جاتی ہیں۔ لیکن دوا جاری رکھنا بے حد ضروری ہے۔خون کی کمی دور کرنے کے لیے جن ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ان میں فیفول وٹ کیپسول،خروٹ‘ ہیموٹ، ویٹرون سی عام ہیں۔ ایک کیپسول یا گولی روزانہ کم از کم 3 ماہ تک کھانا ضروری ہے۔ ان ادویات میں چونکہ آئرن شامل ہوتا ہے اس لیے ان کے استعمال سے پاخانے کا رنگ برائون ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات استعمال کے بعد چند دن تک پیٹ میں درد بھی رہ سکتا ہے۔ لیکن یہ وقتی مسائل ہیں جو چند دن میں دور ہو جاتے ہیں یا جسم ان کا عادی ہوتا جاتا ہے کیونکہ یہ مضر صحت مسئلہ نہیں۔ اگر کسی کو خون کی شدید کمی ہو اور فوری علاج درکار ہو تو انتقال خون یا خون لگانا ہی لازمی ہو جاتا ہے۔ادویات میں انجکشن کے ذریعے بھی اینیمیا دور کیا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ دوران حمل خون کی کمی ہو جائے تو مہینہ میں ایک دن گوشت میں انجکشن وینوفر ڈرپ میں ملاکر لگایا جاتا ہے یا ہر ہفتے ملٹی وٹامن آئرن کے ساتھ گوشت میں انجکشن لگایا جاتا ہے۔