بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات

374

بلوچستان میں ایک ہی روز وقوع پزیر ہونے والے دہشت گردی کے دو الگ الگ واقعات کے ذریعے پاکستان دشمن قوتیں ایک بار پھر پاکستان کے امن اور سا لمیت پر اپنا وار کرنے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔ ان میں پہلا واقعہ تربت میں پیش آیا جس میں نقاب پوش حملہ آوروں نے پنجاب سے تعلق رکھنے والے پندرہ نوجوانوں کو بے دردی سے فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ ایک اطلاع یہ ہے کہ یہ نوجوان روزگار کی تلاش میں ایران کے راستے یورپ جانے کی کوشش کر رہے تھے اور ان کی شناخت ہونے پر دہشت گردوں نے انہیں انتقام کا نشانہ بنایا۔ دوسری اطلاع یہ سامنے آئی ہے جو اس حملے کی ذمے داری قبول کرنے والی دہشت گرد تنظیم بی ایل ایف کی جانب سے سامنے آئی ہے کہ یہ نوجوان سی پیک پر ضلع کیچ کی حدود میں کام کر رہے تھے جنہیں ان کی شناخت اور سی پیک پر کام کرنے کی سزا دینے کے لیے ہلاک کیا گیا ہے۔
چاہے یہ نوجوان اپنے بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے انسانی اسمگلروں کے ہتھے چڑھ کر کسی نامعلوم منزل کی طرف عازم سفر تھے یا پھر یہ لوگ محنت مزدوری کی غرض سے واقعتاً سی پیک کے منصوبے پر کام کر رہے تھے ہر دو حالتوں میں ان کا بہیمانہ قتل قابل مذمت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن پندرہ نوجوانوں کو بے دردی سے قتل کیا گیا ہے آخر ان کا قصور کیا تھا اور انہوں نے کسی کا کیا بگاڑا تھا۔ اگر ان کوکوئی اپنے دوٹکوں کے فائدے کے لیے بہلا پھسلا کر اور انہیں رنگین خوابوں کا جھانسا دے کر موت کی وادی میں لے جانے کا باعث بنا ہے تو سب سے پہلے تو ان عناصر کی نشان دہی ہونی چاہیے اور انہیں عبرتناک سزائیں دینی چاہئیں، ثانیاً اگر یہ نوجوان سی پیک منصوبے کی بھینٹ چڑھے ہیں تو تب بھی ہمارے مقتدر اداروں کو دیکھنا چاہیے کہ پاکستان دشمن قوتیں سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے اور پاکستان کی مختلف اکائیوں کو انتقام کا نشانہ بنا کر ایک دوسرے سے بد ظن کرنے کے لیے جو اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں آخر ان کا مداوا کیوں کر ممکن ہے۔ یہ بات بجا ہے کہ انسانی اسمگلنگ اور یورپ تک رسائی کا بھوت صرف ہمارے نوجوانوں کے سروں پر ہی سوار نہیں ہے بلکہ یہ پوری تیسری دنیا اور بالخصوص غربت اور بے روزگاری کی عفریت سے نبردآزما ہر اس ملک اور قوم کا مسئلہ ہے جہاں بے روزگاری اور غربت کا راج ہے اور جہاں اقتصادی نا ہمواری، طبقاتی تقسیم اور غربت وافلاس عروج پر ہیں چوں کہ پاکستان بھی ان بدقسمت ممالک میں شامل ہے اس لیے یہاں بھی ہر سال ہزاروں کی تعداد میں نوجوان چور راستوں سے یورپ کے حسین خواب سپنوں میں سجائے اپنی زندگیوں کو خطرات میں ڈال کر وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں۔ تربت کے حالیہ واقعے میں دہشت گردوں کا شکار بننے والے پندرہ نوجوان بھی شاید اسی امید پر اپنے گھروں سے روانہ ہوئے تھے لیکن موت کے آہنی پنجوں نے انہیں یہاں پہنچ کر قوم پرستی اور دہشت گردی کے نام پر دبوچ لیا۔
بلوچستان میں پچھلے دس پندرہ سال سے جاری آگ اور خون کے کھیل کا براہ راست تعلق چوں کہ اس خطے کی مجموعی صورت حال سے ہے جس میں امریکا کی نظریں بلوچستان کی مخصوص جغرافیائی اہمیت کے حامل محل وقوع پر ہے۔ طویل ساحلی پٹی، قدرتی وسائل سے مالا مال، محدود آبادی کے حامل اس وسیع وعریض صوبے جس کی سرحدیں ایک جانب افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں سے ملی ہوئی ہیں اور دوسری جانب ایران کی سات آٹھ سو کلومیٹر طویل سرحد کے علاوہ وسیع وعریض سال کے بارہ مہینے کھلا سمندر جس سے خلیج فارس اور ملحقہ ممالک تک رسائی انتہائی آسان ہے کے بارے میں ذرا تصور کیجیے کہ خدا ناخواستہ بلوچستان پاکستان سے علیحدہ ہوکر ایک الگ اور خود مختار ملک بن جاتا ہے تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ کس کو ہوگا۔ اور وہ کون سی عالمی طاقتیں ہیں جو اس نقشے میں رنگ بھرنا چاہتی ہیں۔ یہ طاقت امریکا سے بڑھ کر اور کوئی نہیں ہو سکتی جسے اس خطے پر اپنے منحوس پنجے گاڑھنے کے لیے یقیناًایک ایسی طفیلی ریاست کی ضرورت ہے جس کی طرف درج بالاسطور میں اشارہ کیا گیا ہے۔
سوئٹزر لینڈ اور برطانیہ میں آزاد بلوچستان تحریک کے سرکردہ راہنماؤں کی موجودگی اور حال ہی میں ان دونوں ممالک میں آزاد بلوچستان کے حق میں چلائی جانے والی تشہیری مہم کے ڈانڈے بلا شک وشبہ متذکرہ امریکی عزائم ہی سے ملتے ہیں۔ یہ سازش اور منصوبہ چوں کہ براہ راست بھارت کے بھی مفاد میں ہے یہی وجہ ہے کہ وہ کھل کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لیے امریکی آلہ کار کا کردار ادا کررہا ہے جس کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت پچھلے سال بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی بلوچستان سے گرفتاری اور اس کا بلوچستان میں دہشت گردی کے نیٹ ورکس کی تشکیل اور مختلف واقعات کا برملا اعتراف ہے۔
پچھلے چند سال کے دوران بلوچستان کے مخدوش حالات پر پاکستان کی مسلح افواج نے جس جرات اور منصوبہ بندی کے ساتھ قابو پایا ہے اس کا اور نیز سی پیک منصوبے کی بروقت تکمیل اور بلوچستان میں پائی جانے والی احساس محرومی جس کو دہشت گرد بطور ایندھن استعمال کرتے ہیں کے خاتمے کا تقاضا ہے کہ عسکری اداروں کے ساتھ ساتھ سول اداروں بالخصوص صوبائی حکومت کو بھی زیادہ جارحانہ اور متحرک انداز میں اگر ایک طرف دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے میں عسکری اداروں کا ساتھ دینا ہوگا تو دوسری طرف بلوچ شہریوں کے احساس محرومی کے خاتمے کے لیے بھی تعمیر وترقی اور صحت وتعلیم کے منصوبوں میں شفافیت اور تیزی کے ذریعے پاکستان دشمن قوتوں کے منفی عزائم کو ناکام بنانے میں اپنا آئینی اور قومی کردار ادا کرنا ہوگا۔