اپنی اپنی مجبوری

555

میاں نوازشریف کا آصف زرداری سے مدد طلب کرنا بھی مجبوری ہے اور آصف زرداری کی طرف سے ان کا بڑھا ہوا ہاتھ جھٹک دینا بھی مجبوری ہے۔ باوجود یکہ دونوں میثاق جمہوریت کی ڈور میں بندھے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف جب سے حالاتِ زمانہ کا شکار ہوئے ہیں آصف زرداری کے ساتھ ان کا تعلق ’’ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار‘‘ کے مصرعے کی تصویر ہے۔ نواز شریف نے کئی مشکل مقامات اور مراحل پر آصف زرداری کو پکارا مگر وہ نظریں چرا اور کنی کترا کر گزر گئے۔ اپنی اس مجبوری کو انہوں نے میاں نواز شریف کے ماضی کے رویے سے جوڑنے کی کوشش کی۔ ماضی میں جب آصف زرداری کی کشتی بھنور میں تھی تو وہ بار بار میاں نواز شریف کو میثاق جمہوریت کے حوالے دے کر پکارتے رہے مگر جواب میں وہی مجبور نگاہی ان کی بے بسی کا مذاق اُڑاتی رہی۔ اب وقت کا دھارا بدل چکا ہے۔ اب نواز شریف وہاں ہیں جہاں کچھ عرصہ پہلے آصف زرداری کھڑے انہیں پکار رہے تھے اور پھر ایک روز خود کو تنہا پاکر وہ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دیتے ہوئے بیرون ملک سدھار گئے تھے۔ آصف زرداری کی طرف سے مدد کی تمام صداؤں کے جواب میں صرف ایک ہی جواب ملتا رہا کہ یہ ملاقات کا مناسب وقت نہیں۔ فاروق ایچ نائیک یہی پیغام لے کر خواجہ آصف سے ملے مگر نامہ وپیام مجبوریوں کے اظہار پر ختم ہوتا رہا۔ اب میاں نوازشریف پیپلزپارٹی سے شاکی ہیں کہ وہ آمر کے بنائے ہوئے قانون کی بحالی پر اصرار کر رہی ہے۔
سینیٹ سے نااہل شخص کے پارٹی سربراہ بننے کے قانون کے خاتمے کے بل کے استراداد کے بعد میاں نواز شریف نے ایک بار پھر کہا ہے کہ وہ اب بھی میثاق جمہوریت پر قائم ہیں۔ میاں نوازشریف کی طرف سے قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ کے ذریعے ایک بار پھر آصف زرداری اور بلاول زرداری کے ساتھ ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا ہوا اور اس کے جواب میں فرحت اللہ بابر نے روکھے انداز میں کہا ہے کہ ملاقات کا کوئی امکان نہیں۔ یوں دونوں طرف مجبوریوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلے اور دائرے ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھ کر محسن بھوپالی یاد آتے ہیں جنہوں نے مجبوریوں کی کہانی یوں بیان کی تھی۔
ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مُہر بلب
جبرِ وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری
جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں
وقت پڑے تو یاد آجاتی ہے مصنوعی سی مجبوری
آصف زرداری ہوں یا نوازشریف حقیقت میں دونوں میثاق جمہوریت پر قائم ہیں، دونوں مفاہمت پر یقین رکھتے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے ادوار میں ایک دوسرے کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے سخت گیر اور مفاہمت مخالف عناصر کو جھڑکتے رہے ہیں مگر دونوں اپنی اپنی مجبوریوں کے دائروں میں گھوم رہے ہیں۔
آصف زردای کی مجبوری یہ ہے کہ ان کی داستانیں ڈاکٹر عاصم، ایان علی اور عزیر بلوچ جیسے سلطانی گواہوں کی وڈیوز اور آڈیوز کی صورت میں ’’آرکائیوز‘‘ کی زینت بن چکی ہیں۔ حسین حقانی جیسے ان کے دوست بس سیٹی بجنے کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور وہ آصف زرداری کے لیے بیرونی دنیا کے ’’عزیر بلوچ‘‘ بن سکتے ہیں۔ چار وناچار انہیں بلاول کو موقع دینا پڑ رہا ہے۔ اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکیاں دے کر جانے والے آصف زرداری کا وطن آنا جانا ایک خاموش مفاہمت کے نتیجے میں ہی ممکن ہوا ہے۔ وہ آندھی کی طرح وطن آتے ہیں ایک آدھ تقریر، دوچار انٹرویو، کچھ ملاقاتیں کرتے ہیں اور پھر اُڑن چھُو ہو جاتے ہیں۔ ان کی یہ آمد ورفت مفاہمت کی کرشمہ سازی ہے۔ اسی مفاہمت نے بلاول زرداری کی سیاست کے لیے راستے کھولے ہیں وگرنہ آصف زرداری تو بہت پہلے انہیں کمسن اور ناتجربہ کار قرار دے کر سیاسی بساط سے ہٹا چکے تھے۔ آصف زرداری کے خانہ دل میں مفاہمت کی نشست اب خالی نہیں رہی۔ وہ بیک وقت دو افراد سے ہاتھ ملانے کا کرتب نہیں دکھا سکتے۔ میاں نوازشریف سے مفاہمت کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی موجودہ مفاہمت سے اعلان برأت کریں جس کے وہ قطعی متحمل نہیں ہوسکتے۔ اپنی موجودہ مفاہمت سے دستبردار ہونے کا نتیجہ انہیں بخوبی معلوم ہے۔ یوں بھی میثاق جمہوریت اب جمہوریت کے عجائب خانے میں رکھی کوئی کرم خوردہ دستاویز ہے کیوں کہ پاکستان کی سیاسی حرکیات بڑی حد تک تبدیل ہو چکی ہیں بالخصوص عمران خان کے اُبھار نے دو جماعتی مفاہمت کو بے معنی بنا دیا ہے اور اگر ملک کی دینی جماعتیں متحد ہو کر زمینی حقیقت کو بدل دیتی ہیں تو میثاق جمہوریت کی اہمیت مزید کم ہو جاتی ہے۔ اس لیے اب آصف زرداری کے خانۂ دل میں مفاہمت کی سیٹ خالی نہیں۔ انہیں اپنی آزادیاں عزیز ہیں، لولی لنگڑی جمہوریت میں دوسرے بڑے حصے دار وہ خود ہیں۔ صوبہ سندھ ان کے ہاتھ کی چھڑی جیب کی گھڑی ہے تو چیرمین سینیٹ اور قائد حزب اختلاف کے عہدے ان کے اپنے ہیں۔ وہ ملک کے اندر ہوں یا باہر پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں کا محور ہیں۔ آمریت کی ہوا چل پڑتی ہے تو بجھنے والے چراغوں میں مرکزی چراغ خود ان کا ہوگا۔ اسی منظر اور پیش منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے آصف زرداری مفاہمت کا واحد کارڈ کھیل چکے ہیں۔ میاں نواز شریف لاکھ شکوہ کناں ہوں، میثاق جمہوریت کے حوالے دیں، مفاہمت کی فیوض وبرکات گنوائیں فی الحال آصف زرداری اپنے دروازے پر ’’مناسب وقت نہیں‘‘ کا بورڈ سجائے بیٹھے ملیں گے۔ نوازشریف کی خواہشِ مفاہمت بھی مجبوری اور آصف زرداری کا انکار بھی مجبوری اور یوں پاکستان کی جمہوریت پر مجبوریوں کا موسم سایہ فگن ہے۔