دھرنے اور شہریوں کے حقوق

412

عدالت عظمیٰ نے بھی فیض آباد دھرنے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے سوال کیا ہے کہ ’’ کون سا اسلام راستے بند کرنے اور ایسی زبان کے استعمال کی اجازت دیتا ہے؟ کیسی زبان، اس کی وضاحت نہیں کی گئی لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ دھرنے میں کیا کچھ کہا جارہا ہے۔ اگر یہ زبان مفتی منیب کبھی سن لیں تو وہ ہرگز دھرنا دینے والوں کی حمایت نہ کریں۔ بہت سے لوگوں کے پاس دھرنے میں دی گئی فحش گالیوں کی ریکارڈنگ موجود ہے جو شاید عدالت عظمیٰ کے علم میں آگئی ہے تبھی جسٹس قاضی عیسیٰ نے ایسی زبان استعمال کرنے پر سوال اٹھایا ہے۔ فیض آباد دھرنا اسلام اور تحفظ ناموس رسالت کے نام پر دیا جارہا ہے جس نبی ؐ محترم نے راستے بند کرنے اور لوگوں کو تکلیف پہنچانے سے منع کیا ہے اور راستے سے رکاوٹ یا تکلیف دینے والی شے ہٹانے پر ثواب کی نوید سنائی ہے۔ لیکن ہمارا عمل اس کے برعکس ہے۔ عالم دین مفتی منیب الرحمن نے فیض آباد دھرنے کی تائید میں دلیل دی ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے بھی 126 دن کا دھرنا دیا گیا تھا، اس سے تو کسی کو تکلیف نہیں ہوئی۔ بہت احترام کے ساتھ ، ایک غلط کام کسی دوسرے غلط کام کی دلیل نہیں بنتا۔ اور عمران خان کے جس دھرنے کی طرف مفتی صاحب کا اشارہ ہے کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس سے کسی کو تکلیف نہیں ہوئی ہوگی۔ اور کیا اس دھرنے میں بھی سیاسی جھلک نہیں ہے؟ خود مفتی صاحب مختلف مواقع پر بندر روڈ کی ناکا بندی پر ناپسندیدگی کا اظہار کرچکے ہیں۔ فیض آباد دھرنے کی حمایت میں کراچی میں نمائش چوک پر دھرنا دینے والوں سے بھی عوام الناس پریشانی میں مبتلا ہیں ، بدترین ٹریفک جام کا سامنا ہے۔ مفتی صاحب کو چاہیے تھا کہ مسلک سے قطع نظر ان کو سمجھاتے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ آزاد انہ نقل و حرکت ہر شہری کا حق ہے اور آئین کی شق 14 اس کا تحفظ کرتی ہے لیکن لوگوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیوں ہو رہی ہے؟ معزز جج کے علم میں ہوگا کہ عوام کے اس بنیادی حق کی خلاف ورزی پہلی بار نہیں ہو رہی اور نہ ہی شاید آخری بار۔ آزادانہ نقل و حرکت کا یہ حق بارہا سلب کیا جاتا رہا ہے اور عموماً مذہب کے نام پر۔ عاشورہ محرم میں پھر سوم اور چالیسویں کے حوالے سے، اور اب 12ربیع الاول کو رسول اکرم ؐ کے یوم وفات پر جشن میلاد منایا جائے گا اور راستے بند ہوں گے۔ اہل تشیع کراچی سے باہر کسی سانحہ پر کراچی میں دھرنا دیتے رہتے ہیں ۔ سیاسی جماعتیں جلسے جلوس کے لیے عوام پر راستے بند کردیتی ہیں۔ اور تو اور عوام سے خوف زدہ نام نہاد وی وی آئی پی جب سڑکوں پر نکلتی ہیں تو راستے بند کردیے جاتے ہیں۔ کچھ ایسے مقامات ہیں جو برسوں سے عوام کے لیے بند ہیں مثلاً کراچی میں بلاول ہاؤس کے سامنے سڑک 12سال تک بند رہی۔ لاہور میں شہباز شریف کے گھر کے سامنے کی سڑک 15سال سے عوام کے لیے بند ہے۔ جاتی امرا کو جانے والی رائے ونڈ روڈ بند پڑی ہے۔ پشاور مال روڈ 15سال سے عوام پر بند ہے۔ خیبر روڈ کمرشل اور پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے 15سال سے بند ہے۔ پشاور میں یونیورسٹی سے اڈے تک جانے والی ہر گاڑی کی تین مرتبہ تلاشی لی جاتی ہے اور اسی شہر میں یونیورسٹی روڈ سے صدر کی طرف آنے کے لیے شناختی کارڈ کے بغیر داخلہ ممنوع ہے۔ راولپنڈی کنٹونمنٹ ایریا سے کوئی نہیں گزر سکتا، پشاور میں ائرپورٹ کو جانے والے چار راستوں میں سے تین بند ہیں، گورنر ہاؤس کے سامنے سے گزرنے والی سڑک 15سال سے عوام کے بنیادی حق کی دوہائی دے رہی ہے۔ اسلام آباد میں بلاول ہاؤس، گیلانی ہاؤس، زرداری ہاؤس،سفیروں کی رہائش گاہوں کے راستے بھی 15سال سے عوام کے لیے بند ہیں۔ فہرست بہت طویل ہے اور اس میں فوج کے زیر استعمال علاقے شامل نہیں ہیں ۔ کراچی میں رینجرز نے فٹ پاتھوں پر بھی قبضہ کر رکھا ہے۔ کبھی رینجرز ہیڈ کوارٹر ہی نہیں سرور شہید روڈ پر کوسٹ گارڈ کے صدر دفتر کا معائنہ کرلیں۔ آئین کی شق 14کہاں کہاں عوام کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے تو وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال تک نے کہا ہے کہ وہاں سے گندی گندی گالیاں نشر ہو رہی ہیں لیکن گالیاں دینے والے اچانک علامہ ہوگئے ہیں ۔ جس زبان سے فحش گالیاں دی جائیں اس زبان پر رسول اکرم ؐ کا نام آنا بجائے خود توہین رسالت کے مترادف ہے۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ دھرنے میں صرف 18سو افراد بیٹھے ہیں جنہیں آدھے گھنٹے میں منتشر کیا جاسکتا ہے۔ لیکن خدشہ یہ ہے کہ اس طرح ملک بھر میں ہنگامہ ہو جائے گا۔ تجزیہ نگاروں کے خیال میں یہ دھرنا مسلم لیگ ن کی پنجاب میں مقبولیت پر ضرب لگانے کے لیے ہے اور ایک تیسری قوت کو میدان میں اتار دیا گیا ہے۔ لاکھوں عوام تکلیف میں مبتلا ہیں ۔ انہی کی خاطر راستے کھول دیے جانے چاہییں۔