سندھ میں پہلی بار میڈیکل کا تعلیمی سال جنوری سے شروع ہوگا

406

کراچی (رپورٹ: قاضی عمران احمد) حکومت سندھ، محکمہ ہیلتھ اور ڈاؤ یونیورسٹی کی عدم دلچسپی اور غیر سنجیدگی کی وجہ سے سندھ میں پہلیبار طبی جامعات و کالجز کے داخلوں8 میں غیرمعمولی تاخیر کے باعث تعلیمی سال جنوری 2018ء سے شروع ہوگا۔ نجی جامعات اور کالجز تاخیر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے منہ مانگی فیس پر داخلے دے رہے ہیں، این ٹی ایس کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان اٹھنے لگے، دسمبر کے دوسرے ہفتے میں ہونے والے دوبارہ داخلہ ٹیسٹ کی تاریخ کا اعلان کرنے سے عدالت عالیہ سندھ نے روک دیا۔ ذرائع کے مطابق نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے تحت 22 اکتوبر کو ہونے والے طبی جامعات اور کالجز کے داخلہ امتحان کے متنازع ہونے اور 11 نومبر کو ایک5رکنی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ کے بعد حکومت سندھ کی جانب سے داخلہ ٹیسٹ کی منسوخی کا نوٹی فکیشن جاری کیا گیا تھا اور
15 دن کے اندر اندر دوبارہ ٹیسٹ کرانے کی ہدایت کی گئی تھی مگر 13 دن گزر جانے کے باوجود کوئی قابل ذکر پیش رفت نہ ہو سکی تھی۔ ذرائع کے مطابق حکومت سندھ کی جانب سے 21 نومبر کو وائس چانسلر ڈاؤ یونی ورسٹی کو ایک خط نمبر NO.SO(ME)I.I.AP/2017-18 کے ذریعے باقاعدہ اجازت دی گئی تھی کہ وہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد کے ادارے ایجوکیشن ٹیسٹنگ کونسل (ای ٹی سی) کے تحت دوبارہ داخلہ امتحان منعقد کرائیں۔ ذرائع کے مطابق ڈاؤ کو یہ خط 22 نومبر کو ملا اور اس خط کے بعد وائس چانسلر پروفیسر سعید قریشی نے چیئرمین ہائیر ایجوکیشن کمیشن پروفیسر ڈاکٹر مختار احمد کو ایک خط نمبر Ref No. DUHS/VC./2017/11-10 لکھا جس میں انہوں نے صوبہ سندھ میں ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس کے داخلہ امتحان ایجوکیشن ٹیسٹنگ کونسل کے تحت جتنا جلد ممکن ہو منعقد کرانے کی درخواست کی ہے تاہم 23 نومبر کو عدالت عالیہ سندھ نے این ٹی ایس داخلہ امتحان میں پاس شدہ طلبہ کی دوبارہ داخلہ امتحان لینے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرتے ہوئے حکومت سندھ کے محکمہ ہیلتھ کے سیکرٹری فضل اللہ پیچوہو اور انکوائری کمیٹی کے سربراہ اعجاز مہیسر کو 29 نومبر تک دوبارہ داخلہ امتحان لینے کی تاریخ کا اعلان کرنے سے روک دیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر عدالت عالیہ دوبارہ داخلہ امتحان لینے کی اجازت دیتی ہے تو وہ دسمبر کے دوسرے عشرے سے قبل ممکن ہی نہیں ہے اور پھر حتمی نتائج کی فہرست کو آویزاں کرنے تک جنوری کا پہلا عشرہ شروع ہو چکا ہوگا اور یہ سندھ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوگا کہ نومبر میں شروع ہونے والا تعلیمی سال غیر معمولی تاخیر کے ساتھ جنوری 2018ء میں شروع ہوگا۔ دوسری جانب ذرائع نے بتایا کہ اس غیر معمولی تاخیر کی وجہ سے نجی طبی تعلیمی ادارے ایم بی بی ایس اور بی ڈی ایس میں داخلے کے لیے 25 سے 28 لاکھ روپے تک سالانہ فیس وصول کر رہے ہیں جب کہ پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ سرکاری جامعات اور کالجز میں داخلوں سے قبل نجی جامعات و کالجز میں داخلہ لینے والے طلبہ کی کونسل رجسٹریشن نہیں کرے گی۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیشنل ٹیسٹنگ سروس کے داخلہ امتحان سے قبل 3600 روپے فی طالب علم وصول کیے گئے تھے جن میں سے 900 روپے این ٹی ایس فیس، 1500 روپے بینک چالان (جس کے لیے پابند کیا گیا تھا کہ وہ سندھ بینک میں جمع کرایا جائے گا واضح رہے کہ یہ بینک پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت کی ملکیت ہے) جب کہ باقی 1100 روپے میں فارم اور ٹی سی ایس کی فیس بھی شامل ہے۔ ذرائع کے مطابق سندھ بھر سے قریباً 25 ہزار طلبہ و طالبات نے داخلہ امتحان میں حصہ لیا تھا اس طرح یہ رقم 7 کروڑ سے زائد بنتی ہے جس کا نہ کوئی حساب ہے اور نہ ہی آڈٹ کیا جاتا ہے کہ یہ کہاں گئی؟ ذرائع نے مزید بتایا کہ این ٹی ایس کے تحت داخلہ امتحان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیوں کہ اس کے لیے نہ تو قومی اسمبلی یا صوبائی اسمبلیوں سے کوئی قانون سازی کی گئی ہے اور نہ ہی کوئی ایکٹ پاس کیا گیا ہے، اگر تمام جامعات و کالجز ماضی کی طرح اپنے اپنے اداروں میں خود داخلہ امتحان لیں تو اس سے نہ صرف طلبہ و طالبات کا وقت بچے گا بلکہ انہیں اضافی فیس کے بوجھ سے بھی نجات ملے گی اور باصلاحیت، قابل اور اہل طلبہ طالبات کو ان کا حق بآسانی مل سکے گا۔