رواں برس151 ٹریفک حادثات میں186 شہری جاں بحق 

302

کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی ) شہر میں اس سال اب تک ٹریفک کے 151 حادثات میں186 شہری اپنی جانیں گنو اچکے ہیں، تیزرفتاری، ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں ،ٹریفک پولیس کے پاس افرادی قوت کی کمی اور ٹریفک پولیس کے بدعنوان اہلکار بڑھتے ہوئے ٹریفک حادثات کی سب سے بڑی وجہ ہیں، 38لاکھ گاڑیوں کو سڑکوں پر منظم رکھنے کے لیے صرف 4ہزار پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں، امسال ضلع ساؤتھ میں 15، سینٹرل 23، ایسٹ میں20،ویسٹ 61، کورنگی میں 15 اور ملیر میں 16 المناک حادثات ہوچکے ہیں،شہر میں ہر روز 9سو سے زائد گاڑیاں سڑکوں پر اپنے سفر کاآغاز کرتی ہیں، کراچی میں ٹریفک حادثات اور ان میں اموات بد قسمتی سے معمول بن گئی ہیں، کہیں سڑکیں خراب، کہیں ٹریفک پولیس غائب، کہیں جلد بازی، کہیں رانگ وے جانے کی روش اور کہیں شہریوں کی ٹریفک قوانین کی سنگین خلاف ورزیاں اب تک اس سال 184افراد کی جانیں لے چکی ہیں جبکہ 222افراد زخمی ہوچکے ہیں۔ایسے ہی ایک واقعے میں گزشتہ روز دو بسوں کی ریس میں ایک معصوم 4سالہ بچی اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔اور اپنے والدین کی اکلوتی اولاد 2بس ڈرائیوروں کی جلد بازی اور تیز
رفتاری کی نذرہو گئی ،اس سال اب تک شہر میں 151خونی حادثات ہوچکے ہیں جن میں ضلع ساؤتھ میں 15، ضلع سینٹرل میں 23، ضلع ایسٹ میں 20، ضلع ویسٹ میں 61، ضلع کورنگی میں 15 اور ضلع ملیر کے 16 واقعات 184 افراد کی جانیں نگل چکے ہیں، دیگر حادثات میں 202 افراد زخمی ہوئے۔گزشتہ سال 217 خونی واقعات میں 239 افراد کی ہلاکت جبکہ دیگر واقعات میں 183 افراد زخمی ہوئے تھے۔ٹریفک پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق بس، منی بس اور کوچز کے 31 خونی حادثات ہوئے، ٹریلر، ٹرک، ڈمپر ، واٹر ٹینکر اور آئل ٹینکر کے 83 خونی حادثات ہوئے، سوزوکی پک اپ، کار، جیپ اور ٹیکسی کے 12 خونی حادثات ہوچکے ہیں۔خونی حادثات میں اموات کی سب سے زیادہ شرح موٹرسائیکل سواروں کی ہے جن میں 109 افراد کی جانیں گئیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں میں دوسری بڑی تعداد راہگیروں کی ہے جو کہ 40 تک جا پہنچی ہے۔اگر عالمی جائزہ لیا جائے تو گزشتہ سال ترقی یافتہ ممالک میں سالانہ خونی حادثات میں 180 افراد جاں بحق اور دیگر حادثات میں 221افراد زخمی ہوئے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر بھاری جرمانے، سزائیں، شہریوں میں آگاہی ، گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کی رجسٹریشن اور بہتر سڑکوں کو یقینی نہیں بنایا جاتا تو ٹریفک حادثات کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ حادثات کے 3 بڑے عوامل ہیں جن میں ڈرائیونگ لائسنس کے بغیر ناتجربہ کار ڈرائیورز کا گا ڑیاں چلانا، تیز رفتاری اور بغیر اشارہ دیے اوورٹیکنگ کرنا شامل ہیں۔اعداد و شمار کے مطابق ملک کے سب سے بڑے شہر کے 60 فیصد ڈرائیورز کے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے، اسی وجہ سے ٹریفک کے کنٹرول کے ساتھ ساتھ ‘لاپروا ڈرائیوروں’ کو قابو کرنے میں مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ شاہراہوں پر قائم مختلف چوراہوں پر 38 لاکھ گاڑیوں کی نقل و حرکت کو سنبھالنے کے لیے صرف 3 ہزار 200 ٹریفک پولیس اہلکار تعینات ہوتے ہیں۔رپورٹ کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر چلنے والی ٹرانسپورٹ میں یومیہ 908 گاڑیوں کا اضافہ ہوتا ہے۔شہر میں اوسطاً ایک ٹریفک پولیس اہلکار کو 1031 گاڑیوں کو سنبھالنا ہوتا ہے، جن میں سے 54.87 فیصد موٹر سائیکلیں ، گاڑیاں 32.6 فیصد اور رکشہ 5.5 فیصد ہوتے ہیں شہر میں سب سے زیادہ حادثات سپر ہائی وے، نیشنل ہائی وے، کورنگی انڈسٹریل ایریا، مین کورنگی روڈ، شارعِ فیصل اور ماڑی پور روڈ پر ہو تے ہیں اسی لیے ان علاقوں کوبلیک اسپاٹ کہا جاتا ہے۔دوسری جانب جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کے ایمرجنسی وارڈ میں آنے والے یومیہ 1200 مریضوں میں سے 40 فیصد ٹریفک حادثات سے متاثر افراد کو لایا جاتا ہے۔جناح ہسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کی سربراہ ڈاکٹر سیمی جمالی کا کہنا تھا کہ موٹر سائیکل کے حادثات کی وجہ سے زیادہ تر سر اور ٹانگوں سے زخمی ہونے والے افراد اس شعبے میں لائے جاتے ہیں، ان میں لاپروائی سے روڈ کراس کرنے والے افراد اور موٹر سائیکل تیز رفتاری سے چلانے والے شامل ہوتے ہیں۔
ٹریفک حادثات