ان اساتذہ کا کیا قصور؟

413

کراچی میں ایک بار پھر مرد و خواتین اساتذہ پر بہادر پولیس ٹوٹ پڑی۔ لاٹھی چارج، گرفتاریاں وغیرہ کے علاوہ گھسیٹا بھی گیا۔ خواتین کو مرد پولیس اہلکاروں نے دھکیل کر گاڑیوں میں ٹھونسا۔ غنیمت ہے کہ خواتین اساتذہ سے نمٹنے کے لیے لیڈی پولیس بلالی گئی تھی لیکن وہ بھی کچھ کم خونخوار نہیں تھی اور خواتین کو دوڑا دوڑا کر مارا۔ اساتذہ ہر معاشرے میں قابل احترام سمجھے جاتے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں نئی نسل کا بناؤ اور بگاڑ ہے۔ ممکن ہے جو پولیس اہلکار ان اساتذہ پر ٹوٹے پڑ رہے تھے ان کے اپنے بچے بھی ایسے ہی کسی استاد کے شاگرد ہوں ورنہ یہ پولیس والے بھی خود کسی کے شاگرد تو رہے ہوں گے۔ کراچی میں اساتذہ پر لاٹھی چارج وغیرہ کے مناظر پہلے بھی دیکھنے میں آچکے ہیں اور گزشتہ جمعرات کا منظر اعادہ تھا۔ ان اساتذہ کا قصور یہ ہے کہ وہ کئی ماہ سے واجب اپنی تنخواہ کا مطالبہ کررہے تھے اور اس کی فریاد لے کر سندھ اسمبلی جانا چاہتے تھے لیکن کراچی سمیت ملک بھر میں ایسے کئی ’’ریڈ زونز‘‘ ہیں جن میں فریادی داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ علاقے صرف حکمرانوں کے لیے مختص ہیں جنھیں عوام کے مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں۔سندھ پر حکمران پیپلزپارٹی کے صدر نشین بلاول زرداری حالات سدھار نے کے لیے بڑے دعوے آدھی انگریزی، آدھی اردو میں کرتے رہتے ہیں ان کے دعوؤں میں اسکولوں اور محکمہ تعلیم کا سدھار بھی شامل ہے لیکن سندھ میں یہی شعبہ بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ وہ اساتذہ جو کئی ماہ سے تنخواہ سے محروم ہیں انہیں کسی نے تو ملازمت دی ہوگی پھر تنخواہ کیوں نہیں دی جارہی۔ لاٹھی چارج تو ان پر ہونا چاہیے جنہوں نے بھرتی کیا۔ وزیر تعلیم سندھ جام مہتاب ڈھر نے تو ان اساتذہ کی بھرتی کو جعلی قرار دے دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ 2012ء میں ان اساتذہ کی بھرتیاں غیر قانونی طور پر کی گئیں جب کہ اسامیاں موجود نہیں تھیں چنانچہ ان سے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے نہ واجبات ادا کیے جائیں گے۔ ان کی بھرتیاں پیسے لے کر کی گئیں۔ وہ یہ بھی بتادیتے کہ پیسے کس نے لیے۔ 2012ء میں بھی تو حکومت پیپلزپارٹی ہی کی تھی اور وزیر تعلیم بھی پیپلزپارٹی کے تھے۔ پیسے بھی انہوں نے ہی لیے ہوں گے۔ یہ اساتذہ وزیر تعلیم پیر مظہر الحق کے دور میں بھرتی کیے گئے تھے ان سے کسی نے پوچھا کہ کتنے پیسوں ح میں اسامیاں بیچیں؟۔ جام مہتاب کا کہناہے کہ پورے صوبے میں 23 ہزار جعلی بھرتیاں ہوئیں۔ لیکن یہ وضاحت نہیں کی گئی کہ پیسے کس نے جیب میں ڈالے۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ یہ کارنامہ پیپلزپارٹی ہی کا ہے جو روزگار دینے کے وعدے اسی طرح پورے کرتی ہے کہ پیسے لے کر اسامیاں بیچ دو بعد میں لوگ خود نمٹتے رہیں گے یہ کام صرف محکمہ تعلیم میں نہیں ہورہا بلکہ شاید ہی کوئی ایسا محکمہ بچا ہو جہاں ایسا نہ ہوا ہو۔ اس ضمن میں زرداری کی بہن اور بلاول کی پھوپھی فریال تالپور کا نام بھی لوگوں کی زبان پر ہے لیکن ان اساتذہ کا کیا قصور ہے جو تنخواہ سے محروم رہے اور ان کی پکڑ دھکڑ کے علاوہ ان پر مقدمے بھی عاید کردیے گئے۔ حکومت ان کا نام بتائے جنہوں نے جعلی اسامیاں فروخت کیں۔