جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو سزا دینے کا مقصد اصلاح کرنا ہوتا ہے مگر موجودہ نظام عدل کی تشکیل ایسے خطوط پر کی گئی ہے جس کا بنیادی مقصد صرف اور صرف سزا دینا ہوتا ہے شاید قانون کی تعلیم حاصل کرنے والوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ ہر قانون شکنی قابل سزا نہیں ہوتی حالاں کہ عدالت عظمیٰ عمران خان کے مقدمے کی سماعت کے دوران یہ اعتراف کرچکی ہے کہ ہر قانون شکنی قابل سزا نہیں ہوتی۔
گزشتہ دنوں شہر قائد میں کچھ ججوں نے معمولی سی قانون شکنی کرنے والوں کو ایسی منفرد اور دل چسپ سزائیں دیں جن کا تذکرہ قانون کی کتابوں میں نہیں ملتا۔ مثلاً ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے ایک شخص کو جرمانہ ادا کرنے کے بجائے ایک برس تک ٹریفک سگنل پر ایک پلے کارڈ جس پر ’’احتیاط کیجیے غفلت اور لاپروائی سے گاڑی چلانا جان لیوا ہوسکتا ہے‘‘ کے الفاظ درج ہوں، اٹھا کر کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا، ایک ملزم کو مسجد میں صفیں بچھانے کا حکم دیا گیا اور ایک دوسرے ملزم کو تین سال تک باجماعت نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔ ہم سزا لکھنے سے اس لیے اجتناب برت رہے ہیں کہ مسجد میں صفیں بچھانا اور باجماعت نماز پڑھنا سزا نہیں توفیق ہے جو نصیبوں والے ہی کو ملتی ہے مگر محترم چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ نے ایسی سزائیں سنانے والے ججوں سے جواب طلب کرلیا ہے اور ماتحت عدالتوں میں سنائی جانے والی سزاؤں کا ریکارڈ بھی طلب کرلیا ہے۔
چیف جسٹس سندھ کا کہنا ہے کہ ایسی سزائیں دے کر بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا گیا ہے اور وہ قانون کی خلاف ورزی کسی صورت اور کسی قیمت پر برداشت نہیں کرسکتے کیوں کہ ایسی سزائیں عدلیہ کی بدنامی اور ملک کی رسوائی کا باعث بنتی ہیں۔ تاہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جو جج ملزمان کو عادی مجرم بنانے کے بجائے اصلاح کے ذریعے ایک اچھا اور قانون کا احترام کرنے کا درس دیتے ہیں وہ عدلیہ کی رسوائی اور بدنامی کا سبب کیسے بن سکتے ہیں کیوں کہ ساری دنیا میں غیر روایتی سزائیں دینے کی روایت فروغ پا رہی ہیں۔ چین، ویتنام، ایران، سعودی عرب، تائیوان، بھارت اور برطانیہ میں غیر روایتی سزائیں پسندیدگی کی سند پارہی ہیں۔ چند ماہ قبل مظفر گڑھ جنوبی پنجاب کی ایک عدالت کی جانب سے دی گئی سزا نہ صرف لوگوں کی دل چسپی کا سبب بنی بلکہ جج صاحب کی ذہانت اور عدل پروری کا بھی خوب چرچا رہا۔ منشیات فروشی کے دو ملزمان کو جج صاحب نے ایک سال تک خاک روب کی ڈیوٹی سر انجام دینے کا حکم سنایا، عدالت کے حکم کے مطابق ملزمان گلی کوچوں سے کوڑا کرکٹ اٹھائیں گے اور پھر اس جمع شدہ کوڑے کو شہر سے باہر پھینکنے کی ذمے دار بھی ہوں گے اور پولیس کو پابند کیا گیا کہ ملزمان کسی کوتاہی کے مرتکب نہ ہوں۔ ایک ملزم کو جو بھنگ فروشی کیا کرتا تھا اسے ایک برس تک مسجد میں پانچوں وقت باجماعت نماز پڑھنے کا حکم سنایا گیا۔ چیف جسٹس سندھ کچھ بھی کہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملزم یہ سزا بھگت کر بہت خوش ہے اس کا کہنا ہے کہ نشے کی لت سے جان چھوٹ گئی اور ثواب بھی مفت میں ملا۔ شنید ہے اس نے منشیات فروشی سے توبہ کرلی ہے۔
یہاں ہم اہل وطن کی توجہ یہودی ذہنیت کی جانب مبذول کرانا چاہیں گے، اطلاع کے مطابق اسرائیلی حکام نے کچھ فلسطینیوں کے مکانات گرادیے تھے، عدلیہ سے رجوع کیا گیا تو یہودی جج نے فلسطینیوں کو حکم دیا کہ مکان منہدم کرنے پر جو خرچ ہوا ہے ادا کریں۔ ایران کے ایک جج نے معمولی جرائم میں ملوث مجرموں کو جیل بھیجنے کے بجائے کتابیں خرید کر پڑھنے کی سزائیں دینے کا آغاز کردیا ہے، فیصلے کے مطابق مجرم پانچ کتابیں خرید کر پڑھے گا اور پھر ان کا خلاصہ بھی لکھے گا۔ کاش! ہماری عدالتیں بھی کتابیں خرید کر پڑھنے کا حکم صادر کریں، ایسا کیا گیا تو کتب بینی کا ذوق یقیناًپروان چڑھے گا۔