خونیں بحران کی آہٹ

747

اسلام آباد اور راولپنڈی کے وسط فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک کا دھرنا تیسرے ہفتے میں داخل ہوگیا ہے اور ابھی تک اس مسئلے کے حل کی کوئی واضح امید دکھائی نہیں دے رہی۔ دھرنے والے اپنے مطالبات پر قائم ہیں اور حکومت اپنی روایتی ڈگر پر گامزن ہے۔ دھرنے سے راولپنڈی اسلام آباد کے شہری ہی متاثر نہیں بلکہ آزادکشمیر، وسطی پنجاب اور خیبر پختون خوا کو آنے جانے والے بھی متاثر ین میں شامل ہیں۔ معروف راستوں کی بندش سے سفر کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ امن وامان کے حوالے سے ملک کے حالات اچھے تو ہیں مگر کلی طور پر اچھے نہیں اور یوں کسی حادثے کا دھڑکا ریاست اور عوام کے اعصاب پر سوار ہے۔
بنیادی طور پر اس مسئلے کو سلجھانا حکومت کی ذمے داری ہے۔ عدلیہ سے عوام تک سارا دباؤ حکومت اور مقامی انتظامیہ پر ہے۔ حکومت روایتی طور شلجموں سے مٹی جھاڑ کر مسئلے سے دامن چھڑانا چاہتی ہے مگر جو مظاہرین لاہور سے راولپنڈی آکر بیٹھے ہیں ایک باقاعدہ ایجنڈا رکھتے ہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ فتح کا کوئی پھول اپنی پگڑی میں ٹانک کر گھروں کو لوٹیں۔ مظاہرین حکومت سے وزیر قانون زاہد حامد کے عہدے کی قربانی مانگتے ہیں اور حکومت اسے پسپائی سمجھ رہی ہے۔ یہ روایتی اور سیاسی دھرنا نہیں بلکہ اس میں مذہبی جذبات رچ بس گئے ہیں۔ بڑی اور معتبر خانقاہوں کے متولی، گدی نشین اور علما، دینی مدارس کے طلبہ مذہبی فریضہ اور عشق رسول کا تقاضا سمجھ کر دھرنے میں شریک ہوتے ہیں۔ موسموں کی شدت اور بھوک پیاس سے بے نیاز ہجوم مرنے مارنے پر تلا ہوا ہے۔ فرشتے آتے ہیں اور دھرنے کے شرکاء کو کھانے پینے کی اشیا بلکہ موسم کی مناسبت سے کپڑے اور کمبل حتی کہ پکوڑے اور جلیبی فراہم کرتے ہیں۔ میڈیا بائیکاٹ کی روش پر قائم ہے مگر تحریک لبیک کا سوشل میڈیا ونگ تیز ہے اور مولانا خادم حسین رضوی اور دوسرے مقررین کے خطابات کے وڈیو کلپس اور لائیو لنکس لمحوں میں شیئر کرکے ہزاروں لاکھوں افراد تک پہنچاتا ہے۔ ہر سوال کے جواب میں مولانا رضوی کے پاس اقبال ؒ کا ایک اردو یا فارسی شعر ہوتا ہے۔ سب سے خطرناک بات فریقین میں ڈیڈلاک پیدا ہو چکا ہے۔ افواہیں، غلط فہمیاں، تند وتیز زبان میڈیا اور عدلیہ اورعین ممکن ہے سفارتی حلقوں کا دباؤ بھی ہو۔ ایسے میں وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے چونکا دینے والی بات کی ہے کہ کچھ لوگ حکومت کو بریلوی مکتب فکر سے لڑانا چاہتے ہیں۔
فیض آباد میں سجا اسٹیج، فریقین کے رویے، لہجے اور مطالبات اور ردعمل دیکھ کر لال مسجد بحران کے کلائمکس کے دن یاد آرہے ہیں۔ اس بحران کا آغاز بھی کھیل ہی کھیل میں شروع ہوا تھا۔ چند مطالبات سے شروع ہونے والا بحران جوں جوں آگے بڑھتا گیا ڈور اُلجھتی گئی۔ مطالبات در مطالبات کا عمل شروع ہوا، کمیٹیاں بیٹھیں، حکومت پر لچک نہ دکھانے اور بلیک میل نہ ہونے کے لیے میڈیا اور سول سوسائٹی کا دباؤ بڑھنے لگا۔ بحران کے ابتدائی دنوں میں جب ڈنڈا بردار طالبات نے اپنے مطالبات منوانے کے لیے لال مسجد کے قریب چلڈرن لائبریری پر قبضہ کیا بحران میں انا کی چند بے ترتیب اینٹیں بکھری پڑی تھیں۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ انا کی دیواریں بلند ہوتی گئیں یہاں تک ایک مقام وہ آیا جب فریقین انا کے بلند حصاروں کے قید میں ہو کررہ گئے۔ عدلیہ، سول سوسائٹی، میڈیا سب نے مل کر حکومت کو ٹارزن بننے کی راہ دکھائی۔ بیرونی دباؤ بھی اپنا کام دکھانے لگا۔ مصالحت اور مذاکرات کے لیے سرگرم کردار کمزور پڑتے چلے گئے۔ ایسے ہی کمزور پڑتے ہوئے کردار مولانا تقی عثمانی سے پوچھا گیا کہ لال مسجد والوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ایک تھکے اور شکستہ انسان کی طرح ان کا جواب تھا ’’ان کا جذبہ ان کی عقل پر غالب آگیا ہے‘‘۔ اس وقت چودھری شجاعت حسین دیوانہ وار لال مسجد اور شاہراہ دستور بھاگتے رہے مگر لال مسجد میں پہلی گولی نے ماحول پر طاری سکوت ہی نہیں توڑا اہل پاکستان سے ان کا سکون بھی چھین لیا۔ پھر وہ تباہی ہوئی کہ جو اپنے دامن میں کئی تباہیوں کو سمیٹ کر لائی اور پاکستان کی ریاست، حکومت اور فوجی نظام کی چولیں ہل کر رہ گئیں۔ ملک میں خود کش حملوں کا سیلاب آگیا۔
تحریک لبیک کے دھرنے نے آج کی حکومت اور ریاست کو وہیں لاکھڑا کیا ہے جہاں لال مسجد بحران کے وقت جنرل پرویز مشرف حکومت تھی۔ پرویز مشرف نے اپنا زور بازو آزما لیا اور جس معاشرے سے داد وتحسین کی طلب میں مشرف نے آپریشن کا فیصلہ کیا تھا وہی معاشرہ اور وہی میڈیا اجتماعی طو رپر حسرت کے ساتھ کہتا پایا گیا کہ کاش اس مسئلے کا طاقت کے سوا کوئی حل نکالا گیا ہوتا۔ مردِ بحران اور ٹارزن بننے کے شوقین مشرف عوام کے بدلتے موڈ اور حالات کے بدلتے دھارے کو دیکھ کر کف افسوس ملتے ہوئے ’’مجھے دھکا کس نے دیا؟ پوچھتے پائے گئے۔ وہ میڈیا سے کہتے رہے آپ ہی تو کہتے رہے آپریشن کرو جب میں نے اس پر عمل کیا تو آپ میرے مخالف ہوگئے۔ اب بھی فریقین انا کے حصاروں میں قید ہوتے جا رہے ہیں اور یہ حصار مزید بلند ہوئے تو مفاہمت کی آوازیں کمزور پڑتی جائیں گی اور درمیانی راستہ نکالنے کے لیے سرگرم کردار آج کے ’’چودھری شجاعت حسین‘‘ بن کرشٹل کاک کی طرح بھاگتے نظر آئیں گے۔ جمہوریت اور آمریت میں رویوں کا باریک سا فرق ہوتا ہے۔ حکومت کو مذہبی جذبات سے بھرے ہوئے ہجوم کا سامنا ہے۔ حکومت کے سامنے بحران سے نمٹنے کا مشرف اسٹائل ہے۔ یہ ایک کہانی ہے جو بہت سی کہانیوں کو جنم دینے کا باعث بنے گی۔ دوسرا راستہ انا کی قربانی ہے جو لال مسجد بحران کے وقت پرویز مشرف اختیار نہ کر سکے تھے۔ حکومت نے اپنی انا وزیر قانون کے عہدے اور ذات کے ساتھ جوڑ کر اپنے لیے ایک اور مشکل پیدا کر دی ہے۔