مجھے ’’چکن گونیا‘‘ نہیں ہوا

334

زاہد عباس
ترقی یافتہ ممالک میں عوام کی بنیادی سہولتوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے۔ صحت اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بلدیاتی محکموں پر حکمرانوں کی خاص نظر ہوتی ہے۔ ہمارے ایک دوست تقریباً 20 سال لندن کے ایک مضافاتی علاقے میں مقیم رہے، وہ اکثر ہم سے لندن حکومت کی جانب سے عوام کو دی جانے والی سہولیات پر بات کرتے رہتے ہیں۔ بیس سال دیارِ غیر میں رہنے کے باوجود وطن کی محبت انہیں واپس پاکستان کھینچ لائی۔ گو کہ ان کی پرورش کراچی میں ہوئی لیکن ایک عرصہ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے ان کی طبیعت میں کچھ تبدیلیاں ضرور آئیں۔ وہاں ہر ادارے کو اپنے دائرۂ کار میں کام کرتے دیکھ کر انہیں حقیقی جمہوریت کو سمجھنے کا موقع ملا۔ کیونکہ وہاں کی حکومت کی جانب سے عوام کے لیے کیے جانے والے ایسے اقدامات کا تعلق روزمرہ زندگی سے ہوتا ہے، اس لیے ہمیں اپنے دوست سے ایک لمبی تقریر سننے کو ملتی ہے۔ ان کی باتیں سن کر ہم خاموش رہتے ہیں لیکن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ ترقی یافتہ ملک کے ایک مضافاتی علاقے کے رہنے والے کو اگر اس قدر حکومتی سہولیات میسر ہیں تو اس ملک کے جدید ترین مرکزی شہروں کے رہنے والوں کو کس قدر اعلیٰ معیار کی سہولتیں میسر ہوں گی۔ وہاں کے بارے میں جو باتیں میں نے اپنے دوست سے سنی ہیں اُن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہاں کا شہری عوامی مسائل پر کس قدر بے فکر اور مطمئن ہوگا۔ مجھے تو اپنے دوست کی باتوں میں ایک ایسے آئیڈیل ماحول کی جھلک دکھائی دیتی ہے جس میں زندگی بسر کرنے کی ہر شخص خواہش رکھتا ہے۔ بڑی ترقی کی تو بات چھوڑیے، علاقے میں کی جانے والی صفائی اور کچرے کو ٹھکانے لگانے کا جو طریقِ کار وہاں نافذ ہے اُس کا ذکر سن کر ہی انسان تعریف کیے بغیر نہ رہے۔ مثلاً سڑکوں، محلّوں اور عوامی مقامات پر بلدیاتی عملہ مستقل اپنے کام میں مصروف رہتا ہے۔ رہائشی مقامات کے باہر رکھے کچرے سے بھرے بڑے بڑے شاپنگ بیگوں کو اٹھانے کے لیے دن میں دو مرتبہ گاڑیاں آتی ہیں، جگہ جگہ لگائے گئے کچرے کے ڈبوں کے گرد کاغذ کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہ دینا وہاں کے بلدیاتی ادارے کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ جب کہ دوسری جانب ہمارے ملک کا سب سے بڑا شہر، سب سے بڑا صنعتی علاقہ کراچی یعنی منی پاکستان ہے جس کے ہر محلے، ہر ادارے کی اپنی ہی ایک کہانی ہے۔ بے شک ہم ان ترقی یافتہ ممالک سے جن کی تاریخ ہزاروں برس پر محیط ہے، مقابلہ نہیں کرسکتے، لیکن یہاں مقابلہ کسی عسکری یا سائنسی ترقی کا نہیں بلکہ اُس کچرے کی صفائی کا ہے جس کو اٹھانے کے لیے کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں، اور نہ ہی اس کام کے لیے کوئی تھنک ٹینک بنانا ناگزیر ہے، جہاں سے ایسے ذہن پیدا کیے جاسکیں جو ہمیں کچرے کو غائب کرنے کے جدید طریقے بتائیں۔ بات بڑی سیدھی سی ہے کہ گلیوں، محلّوں اور بازاروںکے ساتھ ساتھ سڑکوں کے کنارے موجود کچرے کے پہاڑوں کو حکومت کو ہی ختم کرنا ہے۔ غیبی مدد کے انتظار کے بجائے یہ کام نیک نیتی اور خلوص کے ساتھ ہی کیا جاسکتا ہے۔ اس کے سوا ان پہاڑوں سے چھٹکارا حاصل کرنا ناممکن ہے۔
ہمارے یہاں بلدیاتی اداروں کی جانب سے گھروں سے کچرا اٹھانے کے لیے انتظامات تو دور کی بات مرکزی کچرا کنڈیوں تک بھی گاڑیوں کی آمدورفت ممکن نہیں۔ اس ساری صورت حال میں عوام جائیں تو کہاں جائیں! گھروں میں کچرے کی موجودگی اور گلیوں کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پریشان عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت کچرا اٹھانے والے لگالیے۔ کراچی کا کوئی علاقہ ایسا نہیں جہاں اس طرح کے خاکروب نہ ہوں جو ماہانہ طے شدہ رقم کے عوض کچرا اٹھاتے ہوں۔ یعنی عوام حکومت کی طرف سے دی جانے والی اس اذیت کے نتیجے میں پرائیویٹ خاکروب رکھنے پر مجبور ہیں۔ ظاہر ہے اگر حکمران بے حس ہوجائیں تو عوام کے پاس اس کے سوا دوسرا اور کوئی راستہ نہیں رہتا۔ جہاں کراچی کا ہر گھر گندگی کے ڈھیروں کی وجہ سے پریشان ہے وہاں ہمارے محلے والوں نے بھی اس غلاظت کو ٹھکانے لگانے کے لیے محلے اور گھروں سے کچرا اٹھانے اور محلے کی صفائی کرنے کی ذمے داری دتہ نامی شخص کے حوالے کردی۔ ویسے تو دتہ بلدیہ کراچی کا ملازم ہے لیکن اپنی سرکاری ڈیوٹی کے اوقاتِ کار کے بعد اس نے ہمارے محلے میں کچرے سے جنگ کرنے کی ہامی بھرلی۔ یوں دتہ ایک دن چھوڑ کر ہمارے گھروں سے کچرا اٹھانے لگا۔ یہ سلسلہ بہت عرصے تک چلتا رہا۔ محلے کے تقریباً سو سے ڈیڑھ سو گھروں کا کوڑا اٹھانے سے اُسے کچھ نہ کچھ مالی فوائد حاصل ہونے لگے۔ فی گھر دو سو روپے ماہانہ… اگر سو مکانات سے ملنے والی رقم کو جوڑا جائے تو یہ بیس ہزار بنتی ہے۔ کسی غریب کی آمدنی میں اگر اتنی رقم کا اضافہ ہوجائے تو خاصی حد تک اس مہنگائی کے دور میں اسے ریلیف مل جاتا ہے جو خوش آئند عمل ہے۔وقت گزرتا گیا، ہمیں محلے اور گھروں میں کچرے سے نجات ملتی گئی اور دتہ کے پاس بھی اتنی رقم آنے لگی جس سے وہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی خواہشات پوری کرنے لگا۔ اسی قسم کے سرکل اور ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر کام کرنے سے گھریلو معاشی تبدیلیاں آیا کرتی ہیں۔ خیر ایک عرصے تک پابندی سے کام کرتے کرتے ایک روز دتہ منظر سے غائب ہوگیا۔ کام کے درمیان اگر وہ کبھی چھٹیاں کرلیتا تو محلے والوں کو ضرور آگاہ کرتا۔ پریشانی، غمی خوشی ہر انسان کے ساتھ ہوسکتی ہے، یہ زندگی کا حصہ ہے، لیکن بغیر اطلاع کسی شخص کا غائب ہوجانا فکر کی بات تھی، اور پھر جس شخص سے آپ کا برسوں سے تعلق ہو اُس کے بارے میں فکرمند ہونا فطری بات ہے۔
دتہ کی اس طرح گمشدگی ہمارے لیے حیرت کا باعث تھی۔ لوگ اپنے اپنے ذرائع سے اُس کے بارے میں معلومات حاصل کرتے رہے۔ میں نے اُس علاقے سے، جہاں وہ سرکاری طور پر کام کرتا تھا، معلومات لیں۔ ہر جگہ سے ایک ہی جواب ملتا ’’چھٹیوں پر ہے‘‘۔ میں خود اس کے گھر جہاں وہ کرائے پر رہتا تھا، متعدد بار گیا۔ دتہ وہاں سے بھی مکان خالی کرکے جا چکا تھا۔ ایک طرف لوگوں کو اُس کے منظر سے غائب ہونے پر تشویش تھی، تو دوسری طرف گھروں میں جمع ہونے والا کچرا بڑھتا جارہا تھا۔ اس دوران ہمارے محلے میں دو افغانی بچے آئے اور لوگوں سے کچرا اٹھانے کی ذمے داری لے کر محلے سے کچرا اٹھانے لگے۔ ان بچوں نے بتایا کہ دتہ بیمار ہے اسے چکن گونیا ہوگیا ہے، بیماری کی وجہ سے وہ علاقے میں نہیں آرہا، علاج میں کئی ماہ لگیں گے لہٰذا ہم کچرا اٹھاتے رہیں گے، ہمیں علاقے میں موجود ایک تنظیم نے اُس کی جگہ یہ کام دیا ہے، اب دتہ نہیں آئے گا، ہم ہی مستقل یہ کام کریں گے، جو رقم وہ لیتا تھا ہم بھی اتنے ہی پیسے لے کر کچرا اٹھاتے رہیں گے۔
اندھے کو کیا چاہیے، دو آنکھیں… اس طرح سارے محلے نے ان افغانی بچوں سے بات طے کرلی۔ دتہ ایک دن چھوڑ کر آتا تھا جب کہ یہ افغانی بچے ہفتے میں دو دن ہی آتے۔ لوگ مجبور تھے اس لیے برداشت کرتے رہے۔ میں مستقل دتہ کی کھوج میں لگا رہا۔ بالآخر کوششیں رنگ لائیں اور ایک دن مجھے علاقے کی مرکزی سڑک پر کام کرتے ہوئے گمشدہ دتہ کا دیدار ہوگیا۔ میں اس کی اس حرکت پر جس کی وجہ سے سارا محلہ پریشان ہے، اس پر چڑھ دوڑا۔ میرے خفا ہونے پر دتہ نے مسکراتے ہوئے مجھ سے بات چیت شروع کردی۔ اس سے پہلے کہ وہ مزید کوئی بات کرتا میں نے اس کی طبیعت پوچھتے ہوئے کہا ’’تمہارا چکن گونیا ٹھیک ہوگیا؟‘‘
میرے پوچھتے ہی دتہ فوراً بولا ’’مجھے چکن گونیا نہیں ہوا، میں بالکل ٹھیک ہوں، چھٹی پر گیا ہوا تھا، اب واپس آگیا ہوں، لیکن تمہارے علاقے میں کام نہیں کرسکتا، میرے اوپر پابندی ہے، علاقے میں بیٹھی تنظیم نے مجھے کچرا اٹھانے سے منع کردیا، غریب آدمی ہوں کسی سے جھگڑا نہیں کرسکتا، لہٰذا میں نے اپنا علاقہ تبدیل کروا لیا ہے، اب صرف سرکاری نوکری کرتا ہوں اور دوسرا کوئی کام نہیں کرتا، بڑا خراب دور ہے، مجھ پر پابندی لگا کر افغانی بچوں کو تنخواہ پر رکھ لیا گیا ہے، علاقے کے تقریباً ایک ہزار گھروں سے یہ بچے کچرا اٹھا رہے ہیں، دو سو روپے کے حساب سے ایک ہزار گھروں کے 2 لاکھ روپے بنتے ہیں، 40 ہزار ان بچوں کو دے کر ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے علاقہ تنظیم کے لوگ کھا رہے ہیں۔ ایک ہزار گھروں سے کچرا اٹھانا مشکل کام ہے، اس لیے وہ کبھی آتے ہیں کبھی نہیں آتے، بچوں کو 40 ہزار کے ساتھ کچرا بھی مل جاتا ہے جس میں سے وہ اپنے لیے کام کے کاغذ وغیرہ چن لیتے ہیں، علاقے میں جگہ جگہ کچرے کے ڈھیروں کا اضافہ انہی بچوں کی وجہ سے ہوتا جارہا ہے۔ وہ لوگوں کے گھروں سے کچرا اٹھا کر کسی بھی جگہ پھینک دیتے ہیں، تنظیم کو اپنے پیسوں کی فکر ہے، ان کو اس مد میں لاکھوں روپے کمانے کا موقع مل گیا ہے، ہر کام میں دادا گیری چل رہی ہے۔ کراچی کی زمینیں فروخت کردی گئیں، اب پیسے کے لالچ میں غریبوں کا روزگار بھی چھینا جارہا ہے۔ کوڑا کرکٹ… جس کے قریب تک یہ لوگ نہیں جاتے تھے، اب ہمارے جیسا کام کرنے میں بھی کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔‘‘
اس نے مزید بتایا کہ ’’کچرا اٹھانے سے بھی بڑا جرم یہ ہے کہ بلدیاتی محکموں میں کئی تنظیموں نے اپنے افراد کنڈی مین اور خاکروب بھرتی کروائے ہوئے ہیں لیکن کام ہم کو ہی کرنا ہے۔ انہوں نے تو اپنی طاقت کے زور پر نوکریاں حاصل کرلیں، انہیں اس بات کی کوئی شرم نہیں کہ وہ کنڈی مین بھرتی ہوئے ہیں جو کسی برادری کا حق مارنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی طور پر بھی بہت بڑا جرم ہے۔‘‘دتہ کہہ رہا تھا کہ ان تنظیم والوں کا بس نہیں چلتا، اگر ان کے ہاتھ میں روزی ہوتی تو یہ لوگوں کو بھوکا مار دیتے، ہم غریب اپنا ہی خون جلا کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ آپ کے محلے والے اچھے لوگ ہیں، مجھے ان سے کوئی گلہ نہیں، سارے لوگ ایک جیسے نہیں ہوتے، کبھی حالات اچھے ہوئے تو ضرور آپ کے ہی محلے میں کام کروں گا۔ برسوں کی یادیں آپ لوگوں کے علاقے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کراچی بہتر ہوتا جارہا ہے، ایسی چھوٹی چھوٹی حرکتیں کرنے والوں سے بھی شہریوں کو آزادی مل جائے گی، باقی میں اب مستقل اِس علاقے میں ہوتا ہوں، کسی کو ملاقات کرنی ہو تو یہاں پر ہی مل سکتا ہوں۔‘‘
خاصی دیر بات چیت کرنے کے بعد دتہ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ اس ملاقات اور ہمارے درمیان ہونے والی ساری باتیں میں نے علاقے کے لوگوں کو بتا کر علاقے میں دتہ کے حوالے سے پھیلی افواہوں کا خاتمہ کردیا۔ یوں ہم آج بھی بقول دتہ تنظیم کی جانب سے مسلط کیے گئے افغانی بچوں کو کچرا اٹھانے کی ماہانہ رقم دیے جارہے ہیں۔
دتہ کی بتائی ہوئی باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ کراچی کو کچرے کے حوالے کرنے کے پیچھے یہاں کی بے حس حکومت کے ساتھ ایسی تنظیموں کے لوگ بھی شامل ہیں جن کی سیاست کا مقصد عوام کی خدمت سے زیادہ دولت کا حصول ہے۔ کراچی کو صاف ستھرا کرنے کے دعوے کرنے والے میئر کراچی کو اخباری بیانات سے ہٹ کر عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ یہ ذمے داری حکمرانوں کی ہی ہوتی ہے کہ اگر کہیں سے کوئی الزام لگے تو اس کی تحقیقات کریں۔ دتہ نے سیاسی تنظیموں کے کارکنان کو کنڈی مین اور خاکروب کی اسامیوں پر بھرتی کرنے کے جو الزام لگائے ان کی تحقیقات ضرور ہونی چاہے۔ اگر اس بات میں ذرا سی بھی حقیقت ہے تو فوری طور پر ایسی اسامیوں پر جن کا حق ہے انہیں تعینات کرکے ایسے لوگوںکے خلاف کارروائی کی جائے جنہوں نے یہ غیر قانونی عمل کیا۔ میرٹ پر کنڈی مین اور خاکروب کی بھرتیاں کرکے ہی شہر سے کچرا اٹھایا جاسکتا ہے۔ جو کام جس کا ہوتا ہے وہی بہتر انداز میں کرسکتا ہے۔ اگر فوری طور پر اس سلسلے کو بند نہ کیا گیا تو ہر کنڈی مین کے ریٹائر ہونے کے بعد آنے والا فرد سیاسی ہوگا، جس سے آنے والے دنوں میں شہر کی صورت حال مزید خراب ہونے کے سو فیصد خدشات موجود ہیں۔