اجتماع عام کی خوشوار یادیں

261

نگہت یاسمین
ہمارے منہ سے کئی “ر” ایک ساتھ گر پڑے۔ بات ہی کچھ ایسی تھی ہم اور سفر ایسا ہرگز نہ تھا کہ ہمیں کسی ڈاکٹر یا نجومی نے منع کیا ہو مگر عالم خوف کا۔ سنا ہے کتّے کا کاٹا پانی سے بھاگتا ہے اور ہم کاہلی کے مارے سفر سے کوسوں دور رہتے ہیں۔ وہ بھی بچوں کی ریزگاری لاد کر اف نہ بابا ہم نے یوں ظاہر کیا جیسے سنا ہی نہیں ۔
گھر سے ادارے جانے کے لیے تو ہمیں آیاتِ جہاد کا مطالعہ دہرانا پڑتا ہے یقینا تیاری بھی کچھ ایسی ہوتی ہے اجازت مشروط ہو یعنی گھر سے نکلنے سے پہلے کھانا، ناشتہ دھلائی، صفائی کے ساتھ دور قریب کے اعزہ سے خیریت وعافیت فون پر معلوم کر لینا۔ اتنے مراحل کے بعد واپسی کا وقت دریافت کرنا اکثر ہمیں ابنِ بطوطہ بننے پر اکساتا مگر دائیں بائیں بچے ہماری باغیانہ سوچ کو سلادیتے۔مذاق تو پرانا ہے مگر بر محل ہے ہمیں سمندر میں دھکا دینے کے بجائے اس سفر پر روانہ کرنے کے لیے دوسروں سے بڑھ کر اپنوں کا ہاتھ ہے خصوصابچوں کی اسکول انتظامیہ۔۔۔۔غضب خدا کا پہلے چھٹی بعد چھٹی درمیان میں اجتماع عام ،سو گھر پر بچوں نے جو سماں باندھا
چلو چلو مینارِ پاکستان چلو —- بڑھے چلو ساتھیو
گو مگو کا عالم تھا یوں کراچی چھوڑ کر جانا ہمیں گوارا نہ تھاہمارے پیچھے شہر کو کون سنبھالتا (خوش فہمی کی کوئی حد نہیں)اس دوران خالہ کا نہ آنا بھی بحث میں شامل ہو گیا ہماری نہیں بچوں کی جن سے تعلق خاطر کی بناء پر گھر میں اہم مقام حاصل ہے ” وہ تو لاہور جانے کی تیاریوں میں ہیں ” بچوں نے والد کو جوش و خروش سے اطلاع دی ۔
” اچھا ! تو تم سب بھی چلے جاؤ۔۔۔۔کچھ گھوم پھر لینا ” بچوں کو تھپکی مل گئی۔اجازت یوں آسان ہوئی کہ تصور محا ل تھا۔ہم نے چپکے چپکے شروع کردی جس بازار گذشتہ دس سال میں فقط ایک بار جانا ہوا تھا وہاں بچوں کے گرم کپڑے خریدنے کے لیے ایک دن میں دو بار ہو آئے۔ اپنی سہیلی کے ہمراہ درمیانے سے اٹھائے جانے کے قابل دو عدد بیگ بھی خرید ڈالے۔ مگر دل بے ایمانی پر تلا تھا۔ طرح طرح کے عذر پیش کرتا۔لمبا سفر ، تین روزہ کیمپ کی مشقّت اتنا کام۔ ہاں اور ناں کے درمیاں صبح شام بسر ہورہے تھے بہرحال جیت بچوں کے ہاتھ آئی اور روانگی کا دن آن پہنچا۔ خرچ کا انتظام ہمیشہ کی ماننددست ِ غیب سے ہوا۔ زادِ راہ کے لیے توشہ دان میں دو وقت کے کھانے رکھے۔بچوں کی خالہ ایک دن پہلے بزنس کلاس میں روانہ ہو چکی تھیں
20نومبر جمعرات کی صبح گیارہ بجے کے بعد کسی ذمہ دار سے رابطہ نہیں ہوا تو وسوسہ کو زباں مل گئی کہ سب ہمیں چھوڑ کر اسٹیشن چلے گئے۔ خیر فون پر جت گئے پھر اسماء کی بیٹی سے معلوم ہوا قرآن مرکز میں جمع ہیں۔تین بیگ اٹھاکر پہنچے تو کافی ساتھیوں کو بسوں کے انتظار میں پایا۔اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر ہمّت بندھی۔اسٹیشن پہنچ کر اژدہام کا سامنا تھا۔
عزیز قارئین ! یہ نثر پارہ اس تحریر کا حصہ ہے جو دو سال قبل شروع کی گئی یعنی 2015مگرغیر منظّم زندگی اورٹال مٹول کے باعث نامکمل رہی اور( اب ڈائری سے دستیاب ہوئی )یوں آپ ایک یاد گار تحریر سے لطف اندوز نہ ہو سکے(اپنے منہ میاں مٹھو ) ” شاید قدرت کو یہی منظور تھا” اس فلسفے کی بناء پر اپنے عقائد کی جتنی اچھی تعبیر ہمیں کرنی آتی ہے دوسرا کوئی کیا کرے گا؟اپنی بشری کوتاہیوں کواوصاف میں ڈھالنا آساں نہیں۔اگر وقت پر کام مکمل کرنے کی مشق ہوتی تو آج حسرت میں مبتلا نہ ہوتے۔ اسی دوران ایک اور اجتماع کی نوید آن پہنچی سو دل کو تسلی دی کہ اجتماعِ پر بہت کچھ لکھا گیا اور ہمارا لکھا کون سا حرفِ آخر ہے۔پھر ہم ہیں اور وہی ادھورے کام ۔
کیا کریں قلم نے ادھوری روداد پر آگے بڑھنے سے انکار کردیا سو بقیہ حصہ بچوں کے ساتھ یادیں دہرانے اور کچھ پرزوں پر درج نکات کی مدد سے تحریر کرنا پڑا۔ بس کے سفر کے دوران خیال آیا کہ فرحت کو سرپرائز دیا جائے ہم بھی محو سفر ہیں مگر ہمیشہ کی طرح ان کے پاس ہم سے بڑا سرپرائز تھا کہ شرکاء اجتماع کی تعداد توقع سے زیادہ پہنچ گئی ہے مزید افراد اب سامان نہ باندھیں۔سچی بات ہے ہمیں بڑی خوشی ہوئی مگر پوری رفتار سے دوڑتی بس رکوانا ،اترنا، سامان بچوںکو پکڑنا بس میں نہ تھا۔ پلیٹ فارم پر پہنچ کر محسوس ہوا کہ ٹرین روانہ ہو چکی ہے۔ یقین مانیے بڑا سکون ملا سٹیشن سے گھر واپسی کا سوچ کر۔مگر حفصہ نے رونا شروع کردیا۔نزدیک سے ایک بھائی آگے بڑھے۔ سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اجتماع گاہ پہنچانے کا عزم دہرایا۔ اور اہل علاقہ تک رہنمائی کی۔ نمازعصر کے بعد ٹرین چل پڑی۔ یوسف بہت سارے لڑکوں کو دیکھ کر خوش تھا۔ کبھی اسید ، مصعب کے ساتھ اوپر چڑھتا ،کبھی کھڑکی والی سیٹوں پر لپکتا۔رات کے اندھیرے اور ریل گاڑی چھکا چھک ۔۔۔
یوں تو پوری زندگی ایک سفر ہے اور اسی زندگی میں ہر انسان کو کئی مختصر ،ضروری ،ہنگامی ،تفریحی اوربا مقصدسفر پیش آتے ہیں کراچی سے لاہور کا سفر کہنے کو بارہ پندرہ گھنٹے پر محیط ہے مگرنومبر کا مہینہ ہو تو موسم کا فرق سامان بڑھا دیتاہے۔سوئٹر موزے ، کمبل گدے ناشتے دان سنبھالتے ،یادوں کے شگوفے کھلاتے، دنیا کے عارضی قیام کی یاد دہانی کراتے مینار پاکستان کی طرف رواں دواں۔ بات کہیں سے بھی شروع کی جائے مقصد نہ ہو تو زندگی کی کتھا پھیکی اور غیر دلچسپ ہوجاتی ہے عمر رواں چالیس کا ہندسہ عبور کر لے تو وقت گذرنے کی رفتار سپر سانک طیارے جیسی محسوس ہوتی ہے،زندگی کی امنگ اور بڑھ جاتی ہے۔ایسا ہی ایک سفر 1989 والدین کے ساتھ کیا تھا۔اپنے گھر والوں کے ساتھ کسی تحریکی سفر کا حصہ بننا یاد گار تو ہوتا ہے ساتھ ہی نسل در نسل منتقل ہونے والی روایات مزاج ماحول اور شخصیت میں پوری طرح رچ بس جاتی ہیں۔
لاہورا سٹیشن پر ہمارے استقبال اور رہنمائی کے لیے مستعد افراد کی موجودگی تحریک کا حسن لگا۔ کوئی ساڑھے بارہ کے قریب دھڑکتے دل جذبات سے معمور داخلی دروازے سے اجتماع کی حسین دنیا میں پہنچ گئے جہاں ہر شخص اپنا لگتا ہے۔ کا ش آخرت میں بھی ہمارے ساتھ ایسے اتفاقات کا سلسلہ ہو جائے۔
سامان اور ساتھیوں کے ساتھ اسٹالز سے گذرتے رہائشی کیمپ کا رخ کیا۔ جونہی حریم ادب کا گلابی بینر نظر آیا۔بچے خوشی سے چلائے “خالہ”دم بھر رک کر ملاقات کی مریم، توقیر بھی موجود ، بھاگ کرساتھیوں کو جا پکڑا۔آہا !ضلع وسطی جو حدود پار کرکے اندرون سندھ کے کیمپ سے جا ملا تھا۔ ہمیں بیٹھنے کی جگہ ملی اس وقت جب قناتیں کھول کر مزید گنجائش پیدا کی گئی۔ نماز اورکھانے کے بعد بچوں کو راستے دکھائے ۔ تھوڑی دیر میں ساتھی مل گئے تو ماحول سے مانوس ہو گئے۔
لگے ہاتھوں علمی ،ادبی محفل کا بھی تذکرہ ہو جائے،کچھ ادھوری سی ،کچھ شاعری کچھ نثر یاد داشت کا حصہ بن گئی۔ رات گئے جب الطاف حسن قریشی اور محفل کا رنگ ڈھنگ کو تصور میں لاتے اسکرین پرنظریں جمائے آوازوں پر کان لگاتے اور سامنے سے کوئی نہ کوئی فرد ہاتھ ہلا کر گلے لگا لیتا۔ جمعیت طالبات کے سٹال ڈھونڈ کر پہنچے اور مختلف سرگرمیاں دیکھیں۔
ہفتے کا سورج ابھی طلوع نہیں ہوا مگر مینار پاکستان کے سائے تلے آباد شہر میں تہجد پھر فجر کے بعد چہل پہل تھی۔ سب بہت پر جوش نظر آئے آج طلبہ کے پروگرام خاکے اور ترانے جو ہونے تھے بچوں کی دل چسپی کا بھر پور سامان۔
“بدلتی دنیامیں عورت کا کردار”ہمیں تو اس شام کا اس وقت سے انتظار تھا جب پروگرام کی اطلاع ملی تھی اس کائنات میں ہر شے ہر لمحے میں تبدیلی سے گذرتی ہے تو عورت کیسے قابو پا سکتی ہے ؟ مگر وہاں معلوم ہوا کہ ہم اکیلے نہیں ہیں اس بھر ی دنیا میں جو ایسا سوچتے ہیں کہ دنیا چاہے جتنی بدل جائے مگر مسلمان عورت اپنے اللہ کے عطا کردہ رنگ ،حدود اور حقوق نہیں بدلنا چاہتی بلا شبہ صرف الہامی سلسلے میں انسانیت کی بقا ہے۔ ڈھلتی شام میں برادر اسلامی ممالک کی نمائندہ خواتین اس تاریخی اجتماع سے مخاطب تھیں اور ہم سمیت ہزارہا پاکستانی خواتین شان سے محو گوش تھیں۔ بچے بھی ڈھونڈتے آپہنچے تھے کہ مغرب کی ساعت جو ہوئی۔
” تیسرے دور کا آغاز ” ۔ دھندلکے اندھیروں میں گھل مل رہے تھے ایسے میں نگاہوں نے جو نظارہ کیا ا س نے اس نے اس دنیا میں جنت کا مزا چکھا دیا۔ آسمان میں عجیب سماں تھا۔ بچوں کے ہاتھ مضبوطی سے تھام لیے۔ سامنے قد آدم اسکرین پر کچھ افراد ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے اللہ کی کبریائی بیان کر رہے تھے ،ساتھ میں لاکھوں کا مجمع آوازیں ملا رہا تھا۔نعروں کا جواب دے رہا تھا۔ رات کی سیاہی زمین پر اتر آئی تھی مگر زمین کے ستارے یک جان جگمگا رہے تھے۔جگمگا ہٹ آسمان کی بے کنار وسعتوں میں قوسِ قزح کی مانند طلوع ہورہی تھی۔مخلوقات کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں سینوں میں دل کی جگہ سیال شے حرکت کر رہی تھی۔ نعروں کی گونج فضائے بسیط میں ارتعاش پیدا کر رہی تھی کیسا دل پذیر منظر اور کیسے عجیب لوگ تھے !اسلامی تحاریک کے قائدین ایک ،امت مسلمہ ایک جسد واحد ۔ یہ منظر جس نے دیکھا اس کی یاد داشت میں امر ہوگیا ۔جس نے محسوس کیا اس کی تپش ، حرارت اور جذبوں کے لمس الفاظ میں بیان کرنے کی تاب نہیں رکھتا۔رضائے رب کی اس سے بہترین تصویر کشی کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی۔ ان لمحوں کا ذکر رگ و پے میں سنسناہٹ دوڑا دیتا ہے۔
واپسی: اسما اور ساتھیوں نے اتوار کی دوپہر تک سامان سمیٹنے کی یاد دہانی کروائی “اف ابھی تو آئے تھے اور اتنی جلدی واپس “سوچ کر رہ گئے، ذمہ داران سفر کے لیے کھانا لینے میں مصروف، ہم علاقے کے ساتھیوں کے ساتھ ساما ن گیٹ پر لے گئے پھر وہی ہوا جو ہم جیسوں کے ساتھ ہوتا ہے۔مجمع کے رخ پرحرکت ، سب جدا ہوئے اسکول کی مس وسامہ ، مس حبیبہ اور تسنیم باجی رہ گئے ایسے میں بچوں کے پسندیدہ رائٹر نظر آئے۔ان کی والدہ بس میں سوار ہوگئی ہیں یہ سن کر سب کو سڑک پار کی سوجھی رضاکاروں نے پھر لاہور اسٹیشن کے لیے بس میں چڑھا دیا۔اسما سے فون اس وقت ملا جب پوری رفتار سے بس دوڑ رہی تھی۔ذمہ داران کے بغیر جانے پرڈانٹ ہی پڑنی تھی۔ ٹرین چلنے سے پہلے اسما چھوٹے بچوں کے ساتھ نمو دار ہوئی تو جان میں جان آئی۔
بیگ کا ذکر نہ کریں تو سفر اور اجتماع کی یاد ادھوری لگتی ہے جن پر ہم نے اپنی دانست میں ہشیاری کا ثبوت دیتے ہوئے یوسف کا نام لکھا مگر یہ بات نہ سوجھی کہ وہ تو ہمارے ساتھ رہے گا۔ اور پھر ہمارے بیگ مسجد سے ہی دوسری بسوں میں رکھ دیے گئے تو تسلی تھی کہ کینٹ پر اپنے ساتھ رکھیں گے۔ کینٹ پر ڈھونڈے پھر مردوں کے سامان میں ، پھر تلاش ہوئے۔نئے ، نیلے رنگ کے ساٹن کے لیڈیز بیگ یہ نشانی ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں دہرائی جاتی جو یقینا نا کافی (مجہول) تھی،پوری ٹرین ساز وسامان کے ساتھ انسانوں سے کھچا کھچ بھری ہو اور سب اپنے سامان کی تلاش میں مصروف۔ خیر لاہور اسٹیشن پر یہ سوچ کر پکڑے اب کہیں نہ جانے دیں گے مگر وہ اور ہم الگ الگ ،گھر پہنچنے کے دو دن بعد بیگ بھی سفر ختم کر کے آگئے۔
اب اس سفر سے وابستہ یادیں ایک گل دستے کی مانند مہکتی ہیں۔