عابد علی جوکھیو
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی انسانیت کی خدمت پر مشتمل ہے۔ آپؐ نبوت سے قبل بھی انسانیت کے لیے اسی طرح رحمت تھے جس طرح نبوت کے بعد آپؐ انسانوں کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لائے۔ نبوت سے قبل آپؐ نے ایک بھرپور عمر گزاری۔ چالیس سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا، اسی میں بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی گزر جاتی ہے۔ چالیس سال کے بعد انسان بڑھاپے کی طرف سفر شروع کرتا ہے، اسی لیے انسان جوانی میں جو چاہے کرلے، اسے اس کا اندازہ نہیں ہوتا، لیکن جوانی میں کیے گئے تمام افعال کے اثرات چالیس سال کی عمر کے بعد ظاہر ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا یہی دور ہے جس پر آپؐ کی پوری سیرت اور شخصیت کھڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جس سے بھی عظیم کام لینا ہوتا ہے اُس کی حفاظت بھی وہ خود کرتے ہیں، چونکہ اللہ تعالیٰ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے نبوت کا عظیم کام لینا تھا اسی لیے آپؐ کی زندگی کو بھی تمام تر عیوب سے پاک رکھنے کے ساتھ تمام اوصافِ حسنہ سے بھی متصف کردیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن، لڑکپن، نوجوانی اور جوانی کفار کے سامنے تھی، آپؐ نے یہ عرصہ انہی کے درمیان گزارا۔ جب آپؐ نے لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا تو کسی میں بھی یہ جرأت نہیں ہوئی کہ آپؐ کی شخصیت پر انگلی اٹھا سکے۔ اس کی واحد وجہ آپؐ کی وہ سیرتِ طیبہ تھی جس کی گواہی اپنے اور پرائے سب دینے پر مجبور ہیں۔ اسی شخصیت کے چند پہلو حدیثِ وحی میں سیدہ خدیجہؓ سے مروی ہیں۔ امام بخاری نے اس حدیث کو اپنی کتاب کی ابتدائی احادیث میں بیان کیا ہے:
ایک رات رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ حرا میں معتکف تھے کہ ایک فرشتہ اللہ تعالیٰ کا پیغام لایا، اس نے کہا:
’’پڑھیے‘‘
رحمتِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ فرشتے نے مجھے پوری قوت سے اپنے بازوؤں میں لے کر خوب اچھی طرح دبایا اور پھر چھوڑ کر کہا: ’’پڑھیے‘‘
آپؐ فرماتے ہیں، میں نے کہا: ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘۔
تب اس نے دوسری مرتبہ مجھے زور سے اپنے بازوؤں میں خوب اچھی طرح بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا: ’’پڑھیے‘‘
میں نے کہا: ’’میں پڑھنے والا نہیں ہوں‘‘۔
تب اس نے مجھے تیسری مرتبہ زور سے اپنے بازوؤں میں لے کر خوب اچھی طرح بھینچا اور مجھے چھوڑ کر کہا: (ترجمہ) ’’پڑھو! (اے نبیؐ) اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا، جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے سے انسان کی تخلیق کی۔ پڑھو، اور تمہارا رب بڑا کریم ہے۔ (سورۃ العلق 1۔3)
رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ آیات لیے دھڑکتے دل کے ساتھ سیدہ خدیجہؓ کے پاس تشریف لائے اور سیدہ سے فرمایا:
’’مجھے چادر اوڑھاؤ!‘‘
سیدہ خدیجہؓ نے آپؐ کو چادر اوڑھا دی اور جب آپؐ کی گھبراہٹ سکون میں تبدیل ہوئی تو آپؐ نے اپنی رفیقۂ حیات کو تازہ ترین واقعے کی خبر دیتے ہوئے فرمایا: ’’میں تو احساسِ ذمے داری کے تحت گھبرا گیا تھا۔‘‘
اس پر سیدہ خدیجۃ الکبریٰؓ نے یوں جواب دیا: ’’ہرگز نہیں، آپؐ خوش ہوجائیے، خدا کی قسم، آپؐ کو خدا کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپؐ رشتے داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، (ایک روایت میں یہ ہے کہ امانتیں ادا کرتے ہیں)، بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرتے ہیں، نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں، اور نیک کاموں میں مدد کرتے ہیں۔‘‘
پھر وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر وَرَقَہ بن نَوفَل کے پاس گئیں جو اُن کے چچا زاد بھائی تھے، زمانۂ جاہلیت میں عیسائی ہوگئے تھے، عربی اور عبرانی میں انجیل لکھتے تھے، بہت بوڑھے اور نابینا ہوگئے تھے۔ سیدہ خدیجہؓ نے اُن سے کہا: بھائی جان، ذرا اپنے بھتیجے کا قصہ سنیے۔ وَرَقَہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: ’’بھتیجے تم کو کیا نظر آیا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ بیان کیا۔ وَرَقَہ نے کہا: ’’یہ وہی ناموس (وحی لانے والا فرشتہ) ہے جو اللہ نے موسیٰؑ پر نازل کیا تھا۔ کاش میں آپ کے زمانۂ نبوت میں قوی جوان ہوتا۔ کاش میں اُس وقت زندہ رہوں جب آپ کی قوم آپ کو نکالے گی۔‘‘ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟‘‘ وَرَقَہ نے کہا ’’ہاں، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کوئی شخص وہ چیز لے کر آیا ہو جو آپؐ لائے ہیں اور اُس سے دشمنی نہ کی گئی ہو۔ اگر میں نے آپؐ کا وہ زمانہ پایا تو میں آپؐ کی پُرزور مدد کروں گا۔‘‘ مگر زیادہ مدت نہ گزری تھی کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا۔
بقول خواجہ الطاف حسین حالی ؎
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
ہوئے محو عالم سے آثارِ ظلمت
کہ طالع ہوا ماہِ برجِ سعادت
نہ چٹکی مگر چاندنی ایک مدت
کہ تھا ابر میں ماہتابِ رسالت
یہ چالیسویں سال لطفِ خدا سے
کیا چاند نے کھیت غارِ حرا سے
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
سیدہ خدیجہؓ نے آپؐ کے جن کاموں کا ذکر کرکے آپؐ کو دلاسہ دیا تھا اُن میں سب سے پہلے رشتے داروں سے نیک سلوک (صلۂ رحمی) کرنا ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے بھی حکم دیا ہے اور اس کا بڑا اجر بھی رکھا ہے۔ انسان کے اصل حمایتی تو اس کے رشتے دار ہی ہوتے ہیں، اسی لیے انسان کے مرنے کے بعد اس کی وراثت کے حقدار اور قرض کے ذمے دار یہ رشتے دار ہی ہوتے ہیں۔ یہی رشتے ہیں جن کی بنیاد پر انسان ایک دوسرے سے اپنا حق اور مدد مانگتا ہے۔ اس کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی اور امانت داری کو آپؐ کی شخصیت کے نمایاں پہلو کے طور پر بیان کیا۔ اگر دیکھا جائے تو یہی دو اہم پہلو ہیں جو انسان کے اچھے یا برے ہونے کے لیے کافی ہیں۔ جھوٹا اورخیانت کرنے والا انسان کبھی بھی نیک اور مخلص نہیں ہوسکتا اور نہ ہی کبھی ایسے شخص کو کوئی پسند کرتا ہے۔ بے سہارا لوگوں کا بار برداشت کرنا اور ناداروںکوکما کر کھلانا کوئی معمولی کام نہیں۔ ایسے معاشرے میں جہاں کوئی انسانی اقدار باقی نہ رہی ہوں، لوگ ایک دوسرے کے دشمن ہوں، ہر ایک کو اپنی ذات کی فکر ہو، لوگوں کے لیے مال و دولت جمع کرنا مقصدِ زندگی بن کر رہ گیا ہو، ایسے معاشرے میں اپنی ذات کو پسِ پشت ڈال کر بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا اور ناداروں کے لیے کھانے، پینے، خوراک و رہائش کا انتظام کرنا واقعی ایک بہت بڑا کام تھا، اور سب سے بڑھ کر ان کاموں کے ذریعے کسی سے بھی کسی بدلے اور فائدے کی امید نہ رکھنا اصل کام ہے، کیونکہ انسان جب بھی کوئی کام کرتا ہے، اس کے بدلے اُس کا کچھ نہ کچھ مقصد ضرور ہوتا ہے، لیکن ایسے ماحول اور حالات میں بھی جب انسان کے سامنے کسی امر کے متعلق کوئی واضح تعلیم یا مقصد نہ ہو، نیک کام کرنا اعلیٰ انسانی اوصاف کی مثال ہے۔ کیونکہ یہ سب کام نعوذ باللہ نہ تو آپؐ نے کسی ذاتی غرض کے لیے کیے اور نہ کسی دنیوی مقصد کے لیے، آپؐ کے سامنے یقینا صرف اور صرف رب کی رضا ہی ہوگی، جس کی ایک نیک انسان ہمیشہ توقع رکھتا ہے اور رکھنی بھی چاہیے۔ مہمان نوازی کرنا اچھے اخلاق میں سے ہے، اگرچہ اُس زمانے میں بھی مہمان نوازی کی روایت تھی، لیکن ایک ایسے شخص کا مہمان نوازی کرنا جو خود بہت زیادہ مالدار نہیں، اور نہ ہی وہ اس کے ذریعے معاشرے میں کوئی مقام و مرتبہ چاہتا ہے، انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ سیدہ خدیجہؓ نے آپؐ کا اس وقت جو آخری وصف بیان کیا وہ نیک کاموں میں مدد کرنا ہے۔ انسان کسی بھی معاشرے میں رہتا ہو، وہ اپنے آپ کو اس سے الگ نہیں رکھ سکتا، کیونکہ یہ انسان کی مجبوری ہے کہ وہ معاشرے کے تمام امور میں کسی نہ کسی طرح شریک رہتا ہے۔ لیکن ایسے ماحول میں جہاں خیر سے زیادہ شر کا چرچا ہو، لوگوں کے لیے برائیاں کرنا آسان اور نیکی کرنا مشکل ہو… نہ صرف خود نیک کام کرنا بلکہ نیک کاموں میں لوگوں کی مدد کرنا ایک بہت بڑا کام ہے۔ کیونکہ اس کے ذریعے معاشرے میں خیر کے کام کرنے والوں کی ایک ایسی جماعت وجود میں آجاتی ہے جو ایک وقت کے بعد پورے معاشرے پر غالب آنے کی قوت رکھتی ہے۔ یہ وہ کام ہے جس کی وجہ سے شر کے حامیوں کی جانب سے اعلانیہ یا مخفی مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور خیر اور شر کے بندے چھٹ کر علیحدہ ہوجاتے ہیں۔ سیدہ خدیجہؓ کی جانب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈھارس کے لیے یہ الفاظ کوئی معمولی نہیں، کیونکہ یہ آپؐ کی شریکِ حیات کے الفاظ ہیں جنہوں نے آپؐ کے ساتھ 15سال گزارے ہیں، اور انسان کو اس کے شریکِ حیات سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، کیونکہ یہی وہ رشتہ ہے جو انسان کو ہر طرح کے حالات میں دیکھ اور سمجھ سکتا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اس بات کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’اس قصے سے ایک بات یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبوت سے پہلے آپؐ کی زندگی کیسی پاکیزہ تھی اور آپؐ کا کردار کتنا بلند تھا۔ حضرت خدیجہؓ کوئی کم سن خاتون نہ تھیں بلکہ اِس واقعے کے وقت اُن کی عمر 55 سال تھی اور پندرہ سال سے وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شریکِ زندگی تھیں۔ بیوی سے شوہر کی کوئی کمزوری چھپی نہیں رہ سکتی۔ انہوں نے اِس طویل ازدواجی زندگی میں آپؐ کو اتنا عالی مرتبہ انسان پایا تھا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو غارِ حرا میں پیش آنے والا واقعہ سنایا تو بلا تامل انہوں نے یہ تسلیم کرلیا کہ فی الواقع اللہ کا فرشتہ ہی آپؐ کے پاس وحی لے کر آیا تھا۔ اِسی طرح وَرَقہ بن نَوفَل بھی مکہ کے ایک بوڑھے باشندے تھے، بچپن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی دیکھتے چلے آرہے تھے، اور پندرہ سال کی قریبی رشتے داری کی بنا پر تو وہ آپؐ کے حالات سے اور بھی زیادہ گہری واقفیت رکھتے تھے۔ اُنہوں نے بھی جب یہ واقعہ سنا تو اِسے کوئی وَسوَسہ نہیں سمجھا بلکہ سنتے ہی کہہ دیا کہ یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ ان کے نزدیک بھی آپؐ اِتنے بلند پایہ انسان تھے کہ آپؐ کا نبوت کے منصب پر سرفراز ہونا کوئی قابلِ تعجب امر نہ تھا۔
(تفہیم القرآن)