اکبر الٰہ آبادی

1745

حبیب الرحمن
’’اکبر کا پورا نام اکبر حسین تھا، تخلص اکبر رکھتے تھے، والد کا نام محمد حسین اور دادا کانام فضل احمد تھا۔ ان کا بچپن (ہندوستان) میں گزرا۔ خاندان سخت مذہبی تھا۔ آپ کی پیدائش16نومبر1824ء کو ہوئی۔ آپ کو فارسی ، عربی اور انگریزی میں بڑی مہارت حاصل تھی۔ جہاں پیدا ہوئے تھے وہاں تعلیم کا کوئی معقول انتظام نہیں تھا۔ آپ نے عملی زندگی کی ابتدا ایک عرضی نویس کی حیثیت سے شروع کی لیکن بعد میں 1828ء کو الٰہ آباد کے جج کے عہدے پر فائز ہوئے۔ جب آپ صرف سترہ برس کے تھے تو آپ کی شادی ایک زمیندار گھرانے کی دیہاتی عورت سے گرادی گئی جو عمر میں بڑی بھی تھی اور پڑھی لکھی بھی نہیں تھی۔ وہ آپ کو پسند نہ آئی جس کاانجام طلاق پر ختم ہوا۔ اس بیوی سے آپ کی دو اولادیں ہوئیں ان میں سے ایک کانام عابد حسین اور دوسری اولاد کا نام نذیر حسین تھا۔ دوسری شادی بہت بری عورت ’’لوٹا جان‘‘ سے ہوئی۔ تیسری شادی ایک نہایت شریف خاندان کی عورت سے ہوئی جس کانام فاطمہ صغریٰ تھا ان سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوئی۔ بیٹوں کے نام ہاشم حسین اور عشرت حسین تھے‘‘۔(ماخوذ ’’پیغامِ آشنا‘‘) (ڈاکٹر مشاہد رضوی)
اردو ادب میں شاعری کو بہت ہی اعلیٰ مقام حاصل ہے۔ ادب کسی بھی زبان سے تعلق رکھتا ہو اور اس کی کوئی بھی صنف ہو، وہ اپنے دور کا عکاس ہوتا ہے۔ اگر تاریخی واقعات اور تبدیلیوں کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں کہ ْاس دور کا انسان کس ماحول میں زندگی گزار رہا ہوگا۔ اس بات کو سمجھنے کی لیے یہی بات کافی ہے کہ ایک ڈیڑھ صدی قبل لوگ دلوں کی بات کو بے حجابانہ کہنے سے گریز کیا کرتے تھے۔ دل کی باتیں بھی اشاروں کنایوں میں بیان کی جاتی تھیں لیکن جوں جوں دور بدلا، پردے کی باتیں بھی بلا جھجک زبان پر آنے لگیں اور فی زمانہ اب وہ بے باکی کی ہر حدود کو پھلانگ کر بے ہودگی اور فحش کوئی کا شکار نظر آنے لگی ہیں۔ کسی زمانے میں اتنی احتیاط تھی کی ہر بات حجاب میں ہی کہی جاتی تھی اور محبوب کے احترام کا یہ عالم تھا کہ شاعر کچھ یوں کہا کرتا تھا:

دیکھنا بھی تو انھیں دور سے دیکھا کرنا
شیوۂ عشق نہیں حسن کو رسوا کرنا

یا یوں کہ:

اک اس کو دیکھنے کی لیے بزم میں مجھے
اوروں کی سمت مصلحتاً دیکھنا پڑا

لیکن زمانے نے کر وٹ بدلی تو پھر کچھ یوں بھی ہوا کہ:

کھینچ لینا وہ مرا پردے کا کونا دفعتاً
اور دوپٹے سے وہ تیرا منھ چھپانا یاد ہے

میر تا غالب و ذوق، شاعری کا ایک الگ انداز تھا۔ جس طرح کا بھی اچھا برا دور تھا لیکن برصغیر انڈ و پاک پر مسلمانوں کی حکومت تھی۔ گو کہ اس بات کے آثار بہت واضح ہو چلے تھے کہ مغلیہ دور کا سورج غروب ہونے والا ہے لیکن ابھی ایک عام انسان کو اس تباہی و بربادی کا ادراک نہیں ہو پا رہا تھا یہی وجہ ہے کہ اس دور کی شاعری میں کسی بھی قسم کا جوش، ولولہ یا عوام میں بیداری پیدا کرنے کی کوئی بات دکھائی ہی نہیں دیتی تھی اور شاعری وارداتِ قلبی سے بھری ہوتی تھی۔ اس دور میں کسی کے تصور میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ ایک ایسا بھی دور آئے گا جب شاعری میں پندو نصاح کی باتیں ہونے لگیں گی اور شاعری غزل، قطعہ اور رباعی سے نکل کر مثلث، مسدس اور نظم کی جانب نکل جائے گی اور اپنے اندر عام موضوعات کے علاوہ قوم کی لیے بیداری کے پیغام کو بھی اپنا شعار بنالے گی۔
ہر دور کے اپنے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر دور میں ایسے لوگوں کو مبعوث فرمادیتے ہیں جو قوم کو ابتلا و آزمائش سے نکال کر ان کو امن و سکون کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ چناچہ برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سر زمین کو ہمیشہ سر سبز و شاداب رکھا اور یہاں نہ صرف مصلحانِ قوم آتے رہے اور پیدا بھی ہوتے رہے بلکہ ایسے ایسے شعرا، ادیبوں اوردانشوروں نے جنم لیا جنھوں نے اپنے علم، ادب اور شاعری کے ذریعے لوگوں کو ابتلا و آزماش کی گھڑیوں سے نجات دلائی۔
1877ء سے آپ کی باقاعدہ شاعری کا دور شروع ہوا۔شاعری کا مقصد قوم کی اصلاح تھا۔ مزاحیہ شاعری کے آپ موجد تھے، طنزومزاح وجہ شہرت ہوئی۔ آپ کی وفات 9ستمبر1921ء میں ہوئی۔
اکبر نے بہت کم عمری میں ہی اپنی شاعری کا آغاز کر دیا تھا۔ ہر اچھے ادیب ، مصلح، راہبر اور شاعر کا اندازہ اس کے بچپن سے ہونا شروع ہوجاتا ہے اور پھر آنے والا وقت اس کی تصدیق کر دیتا ہے۔ چنانچہ اکبر الٰہ آبادی کو ایک پختہ کار شاعر کہلانے کی لیے کسی سخت آزمائش سے نہیں گزرنا پڑا۔ ان کے شعری ذوق اور شعر کہنے کی صلاحیت کا جب ان کے چچاسیّد وارث علی کو علم ہوا کہ آپ شعربھی کہتے ہیں تو یہ دیکھنے کے لیے کہ ان میں کس حد تک شعر کہنے کی صلاحیت ہے انھوں نے ایک مصرع دیا کہ اس پر گرہ لگائو۔ مصرع یہ تھا :

بتوں کا عشقِ ہے عشق مجازی بھی حقیقت میں

اکبرنے فوراً اس پر یہ مصرع لگایا :

یہ مصرع چاہیے لکھنا بیاضِ چشمِ وحدت میں

یہ بات یقینا جہاں ان کے چچا کی لیے ایک خوش کن خبر تھی وہیں خود اکبر کے لیے بھی بہت طمانیت کا باعث رہی ہوگی اس لیے کہ جب تک کسی بھی ہنر مند کو کوئی ہنر مند نہ سراہے اس وقت تک اسے بھی اطمنان قلب نصیب نہیں ہوتا اور اس کا اعتماد کلی طور پر بحال نہیں ہوتا۔
عام طور پر ہر شاعر کی ابتدا پہلے سے بنے ماحول کے مطابق ہی ہوتی ہے اور یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ہر شاعر اپنی شاعری کی ابتدا غزل سے ہی کرتا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ شاعری میں غزل گوئی کا مقام سب سے اعلیٰ ہے اور اس میں کسی خیال کو محض دومصرعوں میں بیان کردینا اسی طرح ہے جیسے کسی دریا کو کوزے میں بند کر دینا۔ اکبر کا دور تو ویسے بھی غزل کہنے کا ہی دور تھا چنانچہ ان کی شاعری کی ابتدا بھی غزل گوئی سے ہوئی اور اس میں بھی اسی رنگ کی جھلک تھی جو اس دور میں چہار سو پھیلا ہوا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب غزل میں محبوب کا ذکر، واردات قلب اور لب و رخسار کی باتیں عام تھیں اور غزل لطف بیان، زبان کے چٹخارے، قافیہ پیمائی سے مزین ہوا کرتی تھی۔ اسی لیے اکبر کی اس دور کی غزلوں میں ایسی ہی خصوصیات نمایاں نظر آتی ہیں۔

جس حسیں سے ہوئی الفت وہی معشوق بنا
عشق کس چیز کو کہتے ہیں محبت کیسی

غزل کا سب سے بڑا وصف رنگ تغزل ہے۔ جس شاعر کے اندر اس وصف کو کمال حاصل ہوتا ہے اس کے اشعار محفل کو گرمادیتے ہیں اور مشاعرے کا وہ رنگ جس کی لیے اس کا اہتمام کیا جاتا ہے وہ محفل میں قوس قزح کی طرح بکھر جاتا ہے اور اس کا ہر شریک جھوم جھوم جاتا ہے۔ ہر جانب سے داو و تحسین کی صدائیں بلند ہورہی ہوتی ہیں اور مکر مکر کی تکرارسنائی دے رہی ہوتی ہے۔ اکبر کی غزلیں بھی ایسے ہی اوصاف اور خوبیوں کی حامل ہوا کرتی تھیں اور محفل میں رنگِ قوس قزح بکھیر دیا کر تی تھیں:

پروانہ جل کے خاک ہوا شمع رو چکی
تاثیر حسن و عشق جو ہونی تھی ہو چکی

اکبر نے اپنے والد سے ریاضی کا علم حاصل کیا جو اپنے دور میں ریاضی کے ماہر ہوا کرتے تھے۔ مشن اسکول میں داخلہ بھی مل گیا لیکن جنگ آزادی کی وجہ سے وہ چند برس سے زیادہ تعلیم کے اس تسلسل کو بر قرار نہ رکھ سکے۔ پانی کو اس کے بہنے سے نہیں روکا جا سکتا۔ اگر اس کے بہاؤپر بند بھی باندھ دیئے جائیں تو وہ کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ نکال لیتا ہے۔ علم بھی ایک دریا ہے اور جو اس دریا کی موج بن جائے تو پھر اس کو بھی کوئی نہیں روک سکتا چنانچہ تمام تر نا مْساعد حالات کے باوجود انھوں نے اپنی تعلیم جاری رکھتے ہوئے ذاتی مطالعہ کو اپنا اوڑھنا بجھونا بنا لیا اور اپنے مطالعے کو اتنی وسعت دی کہ بقول سید عشرت حسین، ’’حضرت قبلہ نے مسلسل مطالعے سے کتنی قابلیت بڑھائی اس کا اندازہ عربی، فارسی اور انگریزی کی ان کتابوں سے ہوسکتا ہے جو حضرت قبلہ کے کتب خانے میں موجود ہیں۔ اسکول سے الگ ہوکر کلکتہ یونیورسٹی کی انٹرنس تک کی انگریزی کتابیں پڑھیں۔ سائنس، جغرافیہ اور تاریخ کی طرف بھی توجہ کی‘ پھر ضرورت اور رغبت کے مطابق رو زبروز علم میں ترقی ہوتی گئی‘‘۔ اور اس بات کو بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ انگریز دور میں بھی ’’جج‘‘ کے عہدے پر فائز ہوئے جو ان کی تعلیمی قابلیت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
اکبر کا دوربہر لحاظ کوئی مثالی دور نہیں تھا خصوصاً مسلمانوں کے لیے تو آزمائشوں کا ایسا سیلاب تھا جس کے آگے جو بھی بند باندھا جاتا تھا اس میں شگاف پڑجایا کرتے تھے۔ یہ بھی اللہ کا بر صغیر کے مسلمانوں پر بڑا فضل و کرم رہا ہے کہ ہر دور کے مطابق مسلمانان ہند کے لیے صالحین و مسیحائے زمان آتے رہے اور ان کی رہنمائی فرماتے رہے۔ اکبر سے کچھ پہلے ہوں یا ان کے بعد آنے والے شعرا تک، ایک تسلسل کے ساتھ بڑے بڑے نامور شعرا معاشرے نے پیدا کئے جو قوم کی ہدایت اور رہنمائی کا سبب بنے۔ وعظ و خطابات کے ذریعے اپنے پیغام کو دوسروں تک عام کرنا تو ایک عام سی بات ہے لیکن شاعری کو ذریعہ اصلاح بنانا یہ اس دور کے شعرا کا ہی حصہ رہا ہے۔ ایک جانب مسلمانوں کی زبوں حالی دوسری جانب تعلیم سے بیزاری اور تیسری جانب تواتر کے ساتھ انگریزوں، ہندوؤں، سکھوں اور غیر مسلموں کا ان سے غیرمساویانہ و انسانیت سوز سلوک ان کو غلام در غلام بنائے لیے چلاجارہا تھا تو دوسری جانب ناخواندگی نے ان کو اور بھی پسماندگی کی جانب دھکیل کر رکھ دیا تھا۔ ایسے میں مسلمانوں میں ایسے مصلحان قوم، دانشوروں، ادیبوں، علمائے کرام اور شعراکا ان کے درمیان پیدا ہونا اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی و احسان کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ انھیں نیک انسانوں میں سے ایک نام اکبر الٰہ آبادی کا بھی تھا جنھوں نے اپنے شاعری کو اصلاح معاشرہ کا ذریعہ بنایا اور قوم میں شعور پیدار کیا۔
شاعری کرنا ایک الگ بات ہے لیکن ان میں نئی نئی جہتیں پیدا کرنا اللہ کے انعام کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے۔ پھر یہی نہیں، شاعری میں بھی مزاح نگاری اور طنز کی نشتر کاری انھوں نے ہی ایجاد کی اور اسی اسلوب کو اپنائے رکھا۔اسی اسلوب کے ذریعے آپ نے اپنی قوم میں بیداری پیدا کرنا شروع کی ،یہی طرز شاعری ان کی وجہ شہرت بنی اور اردو شاعری میں انھوں نے وہ بلند مقام پایا جو کسی اور کو حاصل نہ ہو سکا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کی شاعری کی ابتدا حسن عشق اور تذکرۂ لب و رخسار ہی سے عبارت تھی لیکن ان کو جلد ہی یہ احساس ہو گیا کہ یہ ساری باتیں عامیانہ ہیں اس لیے پرانی روش کو چھوڑ دینا چاہیے۔ اس احساس کا اظہار وہ ایک مقام پر کچھ اس طرح کرتے ہیں کہ:

غزل ایسی پڑھو مملو ہو جو اعلیٰ مضامیں سے
کرو اب دوسرے کوچے میں اے اکبر گذر اپنا

ان کے اس شعر سے اس بات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں رہا کہ اب وہ شاعری کی پرانی روایات کو تج کر اس میں ایک نئی جہت پیدا کرنا چاہتے ہیں اور بجائے اس کے کہ پراخیالات اور روایتوں کی پاسداری کے کوئی ایسا طرز عمل اختیار کریں جو اس سے قبل کسی کا وطیرہ نہ رہا ہو۔ یہاں سے ان کی طنز بھری مزاحیہ شاعری کا آغاز ہوتا ہے جس میں اصلاحی پہلو کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں پایا جاتا۔

کہاں کا حلال اور کیسا حرام
جو صاحب کھلائیں وہ چٹ کیجیے
شیخ صاحب دیکھ کر اُس مس کو ساکت ہو گئے
ماسٹر صاحب بہت کمزور تھے چت ہو گئے
سعادت روح کی کس بات میں ہے آپ کیا جانیں
کہ کالج میں کوئی اس علم کا ماہر نہیں ہوتا
طفلِ دل محوِ طلسمِ رنگِ کالج ہو گیا
ذہن کو تپ آگئی مذہب کو فالج ہو گیا
ہوا بدل ہی گئی ایسی کچھ زمانے کی
دعائیں مانگتا ہوں ہوش میں نہ آنے کی
فکر بہشت و کوثر و تسنیم ہو چکی
اب پارک کا خیال ہے چرچے ہیں پمپ کے

شاعری کا ایک وصف تصوف بھی ہے جو اس دورمیں اورخاص کر اردو شعرا کے اولین دور میں بہت پایا جاتا تھا۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ اس وصف سے اکبر کی شاعری محروم رہتی۔ تصوف کے پورے وصف کے ساتھ اس شعر کو ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں۔

ہم نے مخلوق میں خالق کی تجلی پائی
دیکھ لی آئنے میں آئنہ گر کی صورت

(جاری ہے)