سائبان

345

فرحی نعیم
(آخری قسط)
رافعہ کی شادی کو چھ سال ہوگئے تھے، میاں مسقط میں کام کرتا تھا، ہر سال مہینہ بھر کے لیے آجاتا تو بیوی اور گھر والوں کے لیے بہت کچھ لے آتا۔ رافعہ شادی کے بعد مسقط گئی تھی۔ چند سال رہی بھی، لیکن پھر واپس آگئی۔ اس نے میاں سے کہہ دیا کہ وہ مستقل وہاں نہیں رہ سکتی۔ اس کا وہاں دل ہی نہ لگا اور پھر بچے بھی نہیں تھے۔ یہاں تو وہ اپنے والدین، دوست، رشتے دار سب کے ہاں جاتی رہتی اور دل بہلاتی رہتی۔ اس کا میاں بھی اس کے مزاج سے واقف تھا، یوں خاموش ہوگیا۔ اب سال بھر سے وہ یہیں تھی۔ تہمینہ کا اس طرح میاں کے آگے جی حضوری کرنا، خاموشی سے ظلم و ستم سہنا، حد تو یہ کہ اس کی مار اور تشدد کو بھی صبر سے برداشت کرنا رافعہ کو سخت زہر لگتا۔ وہ کئی دفعہ اسے شوہر کے آگے آواز اٹھانے پر اکسا چکی تھی، لیکن تہمینہ نہ جانے کس مٹی سے بنی تھی جو رافعہ کی بات سن کر ٹال دیتی یا چپ کر جاتی، بلکہ اکثر اسے ہی سمجھانے بیٹھ جاتی:
’’رافی تم صرف حال دیکھتی ہو اور میں مستقبل۔ وہ جیسا بھی ہے، ہے تو میرا سہارا، میرا سائبان۔ میری اس محلے اور خاندان میں جو عزت ہے ناں وہ اسی سکندر کی وجہ سے ہے۔ اس سے طلاق لے کر خاندان، برادری میں میری کوئی عزت نہیں رہ جائے گی۔‘‘
’’نہ جانے تم کس زمانے کی بات کرتی ہو! اب ایسا نہیں ہے، اب عورت مضبوط ہوچکی ہے، بہت سے ادارے ہیں جو عورت کو سہارا دینے اور ایسے حالات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اس کے ساتھ کھڑے ہیں‘‘۔ رافعہ اپنی بات میں زور پیدا کرتی۔
’’میں اب بھی تمہاری ہی بات دہرائوں گی کہ میں نہیں تم نہ جانے کس دور کی بات کررہی ہو۔ یہ ادارے ہم جیسوں کے لیے نہیں ہیں، ہمارے لیے گھر ہی سب سے مضبوط سہارا ہے۔‘‘
تہمینہ الٹا رافعہ کی بات ہی جھٹلاتی اور رافعہ تہمینہ کی ایسی استقامت پر چڑ جاتی۔ یہ نہ تھا کہ وہ تہمینہ کا گھر توڑنا چاہتی تھی، لیکن اس سے تہمینہ پر ہونے والا ظلم برداشت نہ ہوتا۔ سکندر جب اسے مارتا تو تہمینہ سے زیادہ رافعہ کو اس کے نیل دیکھ کر رونا آتا۔ اس کے سوجے چہرے اور بازوئوں کو دیکھ کر کتنی دیر وہ آنسو بہاتی اور پھر غصے میں لال پیلی ہوکر وہ تہمینہ کو اپنی جانب سے تو ’’پُرخلوص مشورے‘‘ ہی دیتی۔
…٭…
تہمینہ کھانا پکا رہی تھی کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ دروازے پر رافعہ تھی۔ چہرے پر بڑے ہی پُرجوش تاثرات تھے۔ ہاتھ میں اخبار تھا۔
’’کیا بات ہے، بڑی خوش لگ رہی ہو؟‘‘ تہمینہ نے اسے مسکرا کر دیکھا۔
’’ہاں بہت خوش ہوں اور اس خوشی میں تمہیں بھی شریک کرنے آئی ہوں۔‘‘
’’اچھا تو پھر جلدی سے سنائو۔‘‘
’’سناتی ہوں، بڑی توجہ اور غور سے سنو‘‘۔ رافعہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھا لیا۔
’’اچھا میں چولہا بند کر آئوں پھر تمہاری بات سنتی ہوں‘‘۔ تمہینہ چولہا بند کرکے اس کے پاس آ بیٹھی۔
’’حکومت نے ایک قانون پاس کیا ہے۔ جو خواتین کو ذہنی، جسمانی طور پر ہراساں کریں گے، جو ان پر تشدد کریں گے، ایسے مردوں کے لیے سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ اب کوئی مرد اپنی بیوی، بہن یا کسی بھی عورت کو تشدد کا نشانہ نہیں بنا سکتا۔ ہر ظالم مرد کو اب ظلم کا مزا چھکا دیا جائے گا‘‘۔ رافعہ نے بڑے ہی جوشیلے انداز میں تحفظِ خواتین بل کی تفصیلات تہمینہ کو سنائیں۔ ’’اُف مجھے اتنی خوشی ہورہی ہے کہ…‘‘
’’لیکن تم مجھے یہ سب کیوں سنا رہی ہوں؟‘‘ تمہینہ کے لہجے میں حیرت تھی۔
’’تم کو کیوں سنا رہی ہوں؟ تم ہی کو تو سنانے میں دوڑی آئی ہوں۔ یہ بل سکندر بھائی اور اُن جیسے مردوں کے لیے تو بنا ہے جنہوں نے اپنی بیویوں کا جینا مشکل کر رکھا ہے۔ تم خود اچھی طرح یہ پڑھو اور اب اگر سکندر بھائی نے تم کو ہاتھ لگایا تو انہیں اچھی طرح سمجھا دینا کہ وہ دن گئے جب وہ ظلم کرتے تھے، اب تو ان کو ’’کڑا‘‘ پہنا دیا جائے گا، اور زیادہ مار پیٹ کی تو جیل کی ہوا بھی کھانی پڑ جائے گی‘‘۔ رافعہ بھنویں اچکا کر مزے سے بولی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اس کے سامنے ہی سکندر کو کڑا پہنا دیا گیا ہو۔
’’پھر دیکھنا سکندر بھائی کے دماغ کیسے درست ہوتے ہیں۔ ناک رگڑوا لینا اُن کی، اور اب بالکل دبنے کی ضرورت نہیں، حکومت ہے تمہارے ساتھ‘‘۔ رافعہ اکڑ کر بولی۔
’’تمہارا کیا خیال ہے میں یہ سب کرلوں گی؟‘‘
’’کرنا پڑے گا تمہیں، ریاست تمہیں تحفظ دے رہی ہے۔‘‘
’’اچھا، سکندر کو اندر کروا کر اس کی بہنیں مجھے کیا سر آنکھوں پر بٹھائیں گی یا پورے خاندان میں مجھے بے عزت کریں گی؟ پھر سکندر ہتھکڑی پہن کر یا جیل کی ہوا کھا کر جب گھر آئے گا تو مجھے وہ پھولوں کے ہار پہنائے گا؟ یا پہلے سے زیادہ مجھ پر تشدد کرے گا، یا پھر مجھے گھر سے ہی نکال باہر کرے گا‘‘۔ تمہینہ نے رافعہ کو آئینہ دکھایا۔
’’اگر ایسا کرے گا تو پھر پولیس کے حوالے کردینا، تم تو ہمیشہ منفی پہلو ہی دیکھتی ہو۔‘‘
’’رافی پلیز مجھے یہ نہ بتائو، مجھے اپنا گھر بچانا ہے، توڑنا نہیں۔‘‘
’’اس میں کیا توڑنے پھوڑنے کی بات ہے! بس میں نے کہہ دیا اب جو سکندر بھائی نے تم سے چیخ کر بات کی یا ہاتھ اٹھایا تو تمہیں ان کو بتا دینا ہے اس قانون کے بارے میں، اب تم پہلے کی طرح غیر محفوظ نہیں رہیں، تمہارے ساتھ قانون ہے۔‘‘
پھر کتنی ہی دیر تک وہ اسے سمجھاتی رہی، اسے مضبوط بننے، اپنے حق کے لیے کھڑے ہونے اور ڈٹ جانے پر آمادہ کرتی رہی، اور پھر جب تک تہمینہ نے اس کے آگے ہار نہ مان لی وہ وہاں سے ہٹی نہیں، اور پھر یہ ایک دن کی بات نہ تھی، رافعہ ہر دوسرے روز آکر اسے یہی سبق پڑھاتی اور تہمینہ خاموشی سے سر ہلا دیتی۔
…٭…
آج رافعہ تقریباً ڈیڑھ مہینے بعد تہمینہ کے ہاں آئی تھی۔ اس کا میاں ڈیڑھ ماہ پہلے باہر سے آگیا تھا، اس کے آنے کے بعد تو پھر وہ گھر کی ہی ہوجاتی تھی، پھر ساس کے بھائی کے ہاں شادی تھی جو دوسرے شہر میں رہتے تھے، لہٰذا رافعہ، میاں اور ساس، نند کے ساتھ شادی میں شرکت کے لیے چلی گئی۔ وہاں سے آنے کے بعد میاں کے ساتھ اپنے میکے اور سسرالی رشتے داروں کی دعوتیں بھی بھگتاتی رہی۔ یوں ڈیڑھ ماہ چٹکی بجاتے گزر گیا۔ اس دوران تہمینہ کی اس سے ایک، دو سرسری ملاقاتیں ہی ہوئیں۔ آج وہ میاں کے ساتھ آئی تھی۔ کل اس کا میاں واپس جارہا تھا تو وہ سکندر سے ملنے آیا تھا۔ سکندر اس سے بڑی اچھی طرح ملا۔ خاطر تواضع کی۔ بیوی سے بھی وہ بڑی اچھی طرح بات کررہا تھا اور رافعہ سکندر کا یہ روپ دیکھ کر پہلے تو حیران ہوئی، پھر خوش ہوگئی۔ وہ سمجھ گئی کہ تہمینہ نے ضرور اس کی بات مان لی ہے اور اب تبدیلی سب کے سامنے تھی۔ رافعہ نے نظر بچا کر تہمینہ کو وکٹری کا نشان بناکر دکھایا۔ وہ حقیقتاً سکندر کے بدلے رویّے سے بہت خوش تھی۔ جواب میں تہمینہ کی مسکراہٹ بھی اسے بہت کچھ سمجھا رہی تھی۔
…٭…
’’دیکھا، میں نہ کہتی تھی ذرا میاں کے سامنے ڈٹ کر رہو، کیسے وہ سیدھا نہ ہوگا! میں کب سے کہہ رہی تھی باندی نہیں بیوی بنو، تھوڑا رعب ڈالو۔ اب کام آئی ناں دھمکی۔ سکندر بھائی کچھ بدلے ہوئے تو لگ رہے تھے؟‘‘ رافعہ اپنے بتائے ہوئے طریقے کی کامیابی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولی۔ ’’یہ تمہاری وفائیں کچھ کام آنے والی نہیں۔‘‘
’’چلو تم خوش ہو لو، ویسے سکندر کے رویّے میں تبدیلی تو آئی ہے، اب غصے میں کچھ کمی بھی ہورہی ہے، لیکن اس کی وجہ وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہی ہو۔‘‘
’’کیا مطلب؟ پھر کون سی وجہ ہے…؟ کیا وظیفہ کیا ہے یا جادو کیا ہے؟‘‘ رافعہ مزاحیہ انداز میں بولی تو تہمینہ بے ساختہ ہنس پڑی۔
’’اوہو بڑی ہنسی آرہی ہے تم کو تو۔‘‘
’’ہاں رانی، تمہاری باتیں ہی ایسی ہیں، میں نے نہ رعب دکھایا، نہ دھمکی دی، نہ ہی جادو ٹونا کیا، بس اپنی ہی اصلاح کی، اپنے رویّے میں پیار، محبت کا مزید اضافہ کردیا۔ جب بھی وہ غصہ کرتے یا ناراض ہوتے تو میں ان سے نرمی اور پیار سے بات کرتی، انہیں پیار بھری دھمکی دیتی کہ اب جب تک آپ کھانا نہیں کھائیں گے میں اور بچے بھی کچھ نہیں کھائیں گے، اور جب تک ناراضی ختم نہیں کریں گے ہم ایسے ہی بھوکے بیٹھے رہیںگے۔ بس میرے اس صلح جُو اور محبت و وفا سے گندھے رویوں نے ہی پتھر میں جونک لگانی شروع کردی۔‘‘
’’نہ جانے کیا کہہ رہی ہو تم، محبت و وفا کی مورتی!‘‘ رافعہ جنھجلائی۔
’’ایک عورت کے لیے اس کے گھر اور بچوں سے بڑھ کر کوئی چیز قیمتی نہیں، اور میرے لیے یہ سب انمول ہے۔ مجھے یقین تھا کہ سکندر کو کبھی نہ کبھی میری قربانیوں اور وفائوں پر یقین آجائے گا، اور اب تم خود دیکھ لو‘‘۔ تہمینہ کھل کر مسکرائی۔ ’’میری اپنے گھر اور بچوںسے، شوہر سے بغیر صلے کی خدمت آخرکار رنگ لے ہی آئی۔ آج میرے گھر کا سکون میری قربانیوں اور صبر کا نتیجہ ہے۔ تم کہتی تھی ناں کہ میں کیوں اُس کی چوکھٹ پکڑے بیٹھی ہوں، چھوڑ کیوں نہیں دیتی ایسے ظالم مرد کو؟ تو میری بہن! اُس سے میرا رشتہ میری وفا کا امتحان بھی تھا، اور میں ہر حال میں اس امتحان میں کامیاب ہونا چاہتی تھی۔ اب تم خود دیکھ سکتی ہو سکندر کی آنکھوں میں وفا کے وہی رنگ چمک رہے ہیں جو میری آنکھوں میں ہمیشہ سے تھے‘‘۔ تہمینہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی۔
اور اس وقت رافعہ کو سچ مچ یہ لگا کہ یہ رنگ صرف ان دونوں کی آنکھوں میں ہی نہیں بلکہ ان کے گھر کے درودیوار میں بھی قوس قزح کی طرح بکھر رہے ہیں، اور خاص طور پر تہمینہ تو ان رنگوں میں پور پور ڈوبی ہوئی تھی۔ رافعہ سوچ رہی تھی کہ واقعی گھر پیار، محبت، وفا اور خلوص سے ہی بنتے ہیں۔ پیار و محبت کا اینٹ گارا، دھمکیوں کے سیمنٹ سے زیادہ مضبوط اور پائیدار ہوتا ہے۔