نعتِ نبوی ﷺ میں توحید و رسالت کا فرق

1356

ڈاکٹر شعیب نگرامی
نعت گوئی پر قلم اٹھاتے ہی یہ سوال ذہن میں اٹھتا ہے کہ نعت گوئی کی ابتدا کب اور کہاں سے ہوئی، اور ہماری اردو شاعری میں اسے صنفِ سخن کا درجہ کیسے ملا؟
علمائے لسانیات نے دنیا بھر میں بولی جانے والی زبانوں کو متعدد گروپوں میں تقسیم کیاہے، سامی اور آرین ان لسانیاتی گروپوں کی اہم ترین شاخیں ہیں۔ آرین زبانیں غیر منقسم ہندوستان اور پورے یورپ میں بولی جاتی ہیں، اور چونکہ نعت گوئی کے مخاطبِ اوّل انبیائے کرام علیہم الصلاۃ والسلام ہوا کرتے تھے اور آرین زبانوں کے علاقوں میں کسی نبی یا رسول کی بعثت کے علمی شواہد نہیں ملتے اس لیے آرین زبانوں میں صنفِ نعت کی تلاش تحصیلِ لاحاصل ہے۔
رہی سامی زبان اور اس سے نکلی ہوئی زبانیں، جن کی تعداد علمائے لسانیات کے مطابق 63 ہے اور اس کا علاقہ پورا مشرق وسطیٰ اور براعظم افریقہ کا بڑا حصہ ہے۔ سامی گروپ کی ایک قدیم ترین زبان عبرانی ہے جس کی ابتدا فلسطین سے ہوئی اور جو یہودیوں کی قومی زبان تھی اور آج بھی ہے۔ قرآن کریم اور احادیثِ نبویہ میں یہودیوں میں بے شمار انبیاء کی بعثت کی نشاندہی کی گئی ہے۔ تورات یہودیوں کا آسمانی صحیفہ تھا اور قرآن کریم کی گواہی کے بموجب یہودیوں کے مذہبی پیشواؤں نے اس میں براہِ راست تحریف کی۔ محرف شدہ تورات اس وقت ہمارا موضوعِ سخن نہیں، لیکن محرف شدہ آسمانی صحیفے اور عبرانی لٹریچر میں انبیائے یہود کی تعریف وتوصیف کے بجائے ان پر بداخلاقی اور بدکرداری کے گھناؤنے الزامات کا انبار ہے، اور خاص طور پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی نجی زندگی کی جو تصویر کشی کی گئی ہے اُس کو پڑھ کر حیا کی آنکھیں بھی جھک جاتی ہیں۔ سامی زبانوں کی دوسری اہم ترین اور قدیم ترین زبان عربی ہے جس کی ابتدا جنوبی عرب میں ہوئی اور پھر شمالی عرب بالخصوص مکہ مکرمہ میں آباد قبیلہ جرہم دوئم کے سردار کی بیٹی کے ساتھ عبرانی بولنے والے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی شادی کے بعد یہ زبان اپنی نشوونما کے مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثتِ شریفہ سے ڈیڑھ سو سال قبل ایک مکمل ادبی زبان کی شکل میں معرضِ وجود میں آئی۔ مشہور عرب ادیب جاحظ نے اسی ڈیڑھ سوسالہ عرصے کو زمانۂ جاہلیت سے تعبیر کیا ہے اور اسی ڈیڑھ سو سال میں وہ اعلیٰ شعری ادب وجود میں آیا جس کو ہم جاہلی ادب کے نام سے جانتے ہیں اور جو آج بھی عربی ادب کے ہر طالب علم کے لیے چراغِ راہ ہے۔
نعت کیا ہے؟
عربی زبان میں نعت گوئی کی ابتدا کا ذکر کرنے سے قبل آئیے دیکھیں کہ نعت کیا ہے؟ نعت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معانی تعریف وتوصیف کے ہیں، لیکن اصطلاحاً ان اشعار کے مجموعے کا نام ہے جس کو نعت گو اپنے خونِ جگر سے تیارکرکے محسنِ انسانیت محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالمگیر انسانیت دوست مشن کو نذرانۂ عقیدت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ صاحبِ اقتدار اور دوستوں کی مدح و توصیف اور نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح وتوصیف میں بڑا فرق ہے اور یہ فرق ہمیں زمانۂ جاہلیت اور اس کے بعد عربی زبان کے مدح کے قصائد اور نعتیہ قصائد جن کی ابتدا ہجرتِ شریفہ کے بعد ہوئی، بڑی وضاحت کے ساتھ ملتا ہے۔ نعت کا ذخیرہ عام مدح وتوصیف کے مقابلے میں کمیت، معیار اور قدروقیمت ہر اعتبار سے بہتر و برتر ہے اور اس کے نفسیاتی اور عقلی اسباب ہیں۔ نعت گوئی کا تعلق دل کی گہرائیوں تک اترتے ہوئے عقیدے، فکروشعورکی تمام طاقتوں پر اثرانداز ہونے والے ایمان، سعادت، خوش بختی اور توفیقِ الٰہی کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ یہ تمام عقلی، ایمانی اور جذباتی اسباب شاعری کی پوشیدہ طاقتوں کو ابھارتے، خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتے ہیں، اور افکار و معانی کی ایک دنیا شاعر کے سامنے آجاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و جذبات میں ابال آجاتا ہے۔ شاعر کا داخلی جذبہ موجزن ہوجاتا ہے۔ دین وایمان کا تقاضا ابھر کر آجاتا ہے اور پھر اس کا فطری نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نعت گو کے سامنے افکار و خیالات کا بحرِ ذخار ہوتا ہے اور وہ ستاروں پر کمندیں ڈالتا ہے۔ لیکن اس کے برخلاف جو قصائد کسی صاحبِ اقتدار یا صاحبِ عزت و ثروت کی شان میں کہے جاتے ہیں وہاں مال و منصب کی طلب ہوتی ہے یا حالات کا تقاضا اور وقتی مصالحت۔ اس قسم کے قصائد میں عربی میں متنبی، فارسی میں فردوسی اور اردو میں ذوق کا نام لیا جاسکتا ہے۔
عہدِ رسالت میں نعت کا آغاز:
اہلِ علم اس بات پر متفق ہیں کہ نعت گوئی کی ابتدا عربی زبان میں ہوئی۔ چوتھی صدی ہجری کے مشہور تنقید نگار ابن قتیبہ نے اپنی کتاب ’’الشعر والشعراء‘‘ میں لکھا ہے کہ پہلا نعتیہ قصیدہ مکی شاعرہ حضرت اُم معبدؓ نے رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرتِ شریفہ کے وقت کہا تھا۔ اور پھر ہجرت کے بعد مکہ کے کفار شعراء کی محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف دشنام طرازیوں کے جواب کے لیے نعت گو شعراء کا جو اسکول قائم ہوا اُس کے معمار سیدنا حسان بن ثابت، سیدنا کعب بن زہیر اور سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تھے۔ سیدنا کعب بن زہیرؓ ایک قادرالکلام اور اصنافِ سخن پر حاوی خاندانی شاعر تھے۔ ان کا نعتیہ قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ اس قدر مقبول ہوا کہ اس کی بے شمار شرحیں لکھی گئیں۔ عربی کی 22 شرحوں کے علاوہ فارسی اور اردو میں بہت سے ترجمے اور شرحیں لکھی گئیں جن میں سب سے زیادہ اور سب سے مشہور شیخ احمد بن شمس الدین دولت آبادی کی عربی شرح ہے۔ اس کے بعد مولانا مفتی الٰہی بخش کاندھلوی کی عربی و فارسی شرح اور مولانا ذوالفقار علی کی منظوم شرح و ترجمہ ہے جو 1217ھ میں دہلی سے شائع ہوا تھا۔
توحیدِ خالص کی تینوں قسموں میں توحید الوہیت، توحید ربوبیت اور توحید صفات کو ذہن میں رکھ کر عصرِ اسلامی کے نعتیہ کلام کا اگر آپ مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ ان قصائد میں نبیٔ اُمی صلی اللہ علیہ وسلم کو الوہیت کا درجہ دینے کا دور دور تک کوئی ذکر نہیں، کیونکہ ان قصائد کے کہنے والے، آغوشِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم میں تربیت پانے والے ایسے نیک نفس لوگ تھے جن کے انفاس سے دنیا معطر ہوگئی، جن کے کردار و اخلاق سے انسانیت کی تاریخ میں دلکشی ورعنائی آگئی۔ فضاؤں میں رحم وکرم کی خنکی چھا گئی، محبت والفت کی خوشبو پھیل گئی اور سعادت کا بازار گرم ہوگیا۔ اندلس کے مشہور عالم ابن عبداللہ اور ابن کثیر نے آغوشِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں پرورش پانے والے ان اصحابِ رسول رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا ہے کہ روئے زمین پر انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد سب سے برگزیدہ یہی لوگ تھے۔
عہدِ بنی امیہ میں نعت گوئی:
عصرِ اسلامی کے بعد جب عہدِ بنی امیہ میں نعت گوئی کا آغاز ہوا تو اس کی ڈگر ذرا مختلف راہ پر چل نکلی۔ اہلِ بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے ساتھ کربلا میں جو سانحہ پیش آیا، رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت کے ساتھ اس کا ذکر مبالغہ آرائی کے ساتھ ہونے لگا۔ ان نعت گو شعراء کے سرفہرست کمیت الاسدی، دعبل الخزاعی، اور الشرف رضی تھے۔ قاہرہ یونیورسٹی میں تاریخ عربی ادب کے پروفیسر ڈاکٹر شوقی ضیف نے کمیت الاسدی کے دیوان ’’الھاشمیات‘‘ کو عربی ادب کا پہلا سیاسی دیوان قرار دیا ہے جس میں کمیت نے اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے حقِ خلافت کے لیے دلائل کے انبار لگادئیے ہیں۔ مذکورہ تینوں شعراء نے اپنے سیاسی نظریات سے قطع نظر رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم واہلِ بیت رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے کسی بھی فرد کو الوہیت کا درجہ نہیں دیا، کیونکہ وہ توحید کی تینوں قسموں اور ان کے معانی ومطالب سے بخوبی آگاہ تھے۔
نعت گوئی کو توحید سے شرک کی طرف دھکیلنے کا رجحان:
عربی کی نعتیہ شاعری کو توحیدِ خالص کی ڈگر سے ہٹاکر شرک کے غار میں دھکیلنے کے گنہگار ساتویں صدی کے اندلسی الاصل شاعر ابن ہانی اور اسکندریہ کے نعت گو شاعر محمد بن سعید البوصیری تھے جن کے بارے میں میرے ایک استاد ڈاکٹر محمدالنجار کہا کرتے تھے کہ مذکورہ دونوں شعراء نے شرکیہ نعت گوئی کا جو شجرِ خبیثہ لگایا تھا وہ آج بھی پھل پھول رہا ہے۔ عربی کے بعد جب ہم دوسری اسلامی زبان فارسی کے نعتیہ ذخیرے کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے سامنے ایک ایسی حقیقت کھل کر آتی ہے جو فارسی کے نعتیہ کلام کا تجزیہ کرنے میں ہماری ممدومعاون ہوئی ہے، اور وہ حقیقت خلافتِ عباسیہ کی ابتدا سے اُس کے خاتمے یعنی تقریباً 500 سال تک اہلِ فارسی کی ادبی دنیا میں حکمرانی ہے۔ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں لکھاہے کہ عربوں کی سادگی اور عربوں کی تہذیب وتمدن کی بھرپور حفاظت کی لیکن اس کے برخلاف خلافتِ عباسیہ بالکل ایرانی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ خلفائے بنو شیبہ عربی النسل تھے لیکن خلافت کو چلانے والے تمام تر ایرانی تھے جنہوں نے کبھی بھی دل سے عربی ادب اور عربی تہذیب وتمدن کی بالادستی قبول نہیں کی اور ساتھ ہی انہوں نے تہذیب حجازی کو مٹانے کی جو کوششیں کیں ان کا ذکر المسعودی نے اپنی کتاب ’’ مروج الذھب‘‘ میں بڑی تفصیل کے ساتھ کیا ہے۔ عصرِ عباسی کی عرب دشمن تحریک ’’ شعر ہیت‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہے اور اس تحریک کا سب سے بڑا شاعر ’’ابو نواس‘‘ تھا جو عربوں کی تہذیب و تمدن اور عربی کی شعری روایات کا سب سے بڑا دشمن بھی تھا، اس کے ایک شعر کا ترجمہ ہے:
’’نہ لیلیٰ کو روؤو اور نہ ہند کے مشتاق بنو، بلکہ گلاب کے پھولوں کی کیاریوں میں شراب گلرنگ پیو‘‘۔
لیلیٰ اور ہند نامی ان دو خواتین کا نام عربی شاعری میں اکثر آتا ہے لیکن ابو نواس شعراء کو ان کے نام لینے سے بھی روکتا تھا جو اس کی عرب دشمنی اور عرب تہذیب سے نفرت کی واضح دلیل ہے۔
فارسی شاعری پر محاکمہ ہمارا موضوع نہیں، لیکن ان افکار و خیالات کی نشاندہی ضروری ہے جو فارسی کے نعتیہ کلام پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ عہدِ عباسی کی ابتدا میں فارسی کی شاعری پر عربی تہذیب وتمدن کا بہت کچھ اثر رہا لیکن چوتھی صدی ہجری آنے تک اور بالخصوص شیراز میں آکر اس کا ڈھانچہ بالکل بدل گیا اور حافظ نے اس زوروشور سے غزل کا غلغلہ بلند کیا کہ اس گنبد لاجوردی سے آفریں و مرحبا کی صدا آنے لگی۔ عجمی تصوف، یونانی فلسفہ کے تراجم اور الحاد وبے دینی کی اشاعت نے قدرتی طور پر وہ مضامین پیدا کردئیے جس نے اسلام کے نظام اخلاق کو تہ وبالا کرڈالا، جس نے شریعت اور علماء کے بخیے ادھیڑ دئیے، جس نے واعظ، زاہد اور محتسب کی پگڑیاں اچھال دیں، جس نے شراب اور پانی کو ایک کردیا۔ غرضیکہ شیراز میں اسلام کا شیرازۂ اخلاق بکھرگیا۔ ملحدوں، زنادقہ اور صوفیہ کی گرم بازاری سب سے زیادہ شیراز ہی میں ہوئی۔ اس الحادی دور کی تفصیلات امام ابن قیم الجوزی نے اپنی کتاب ’’تلبیس ابلیس‘‘ میں درج کی ہیں۔ شبلیؔ نے اپنی کتاب ’’شعرالعجم‘‘ میں لکھا ہے کہ غزل کی رندی و سرمستی اور صوفیانہ عقائد وخیالات کی ادب پر حکمرانی کے دور میں دوسرے اصنافِ سخن کے ساتھ فارسی نعت گوئی کی بھی ابتدا ہوئی۔ اور فارسی کے نعتیہ کلام کا مطالعہ کرنے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چند کو چھوڑ کر اکثر فارسی نعت گو شعراء کو نعت کی حد نہیں معلوم تھی، وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ توحید و رسالت کے مابین کیا فرق ہے؟ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان کیا حدیں ہیں اور کیا کہنے سے بندہ بندہ نہیں بلکہ خاکم بدہن خدا بن بیٹھتا ہے۔ اسی لیے فارسی نعت گو شعراء دائرۂ اسلام میں داخل ہونے کے باوجود اپنے موروثی مذہب ’’مجوسیت‘‘ اور وحدۃ الوجود کے شرکیہ عقیدے سے اپنا دامن نہ چھڑا سکے۔ ان شعراء میں سرفہرست فرید الدین عطار، جلال الدین رومی اور عبدالرحمن جامی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ رومی نے اپنی ایک نعت میں اس بات کو ثابت کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگادیا ہے کہ اللہ تعالیٰ (نعوذ باللہ) رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں جلوہ گر ہوا۔