پیپلز پارٹی کہاں ہے

337

تیس نومبر پیپلزپارٹی کا یوم تاسیس ہے‘ اسی نسبت سے پانچ دسمبر کو اسلام آباد میں بلاول زرداری ایک جلسہ کرنے جارہے ہیں‘ اسلام آباد میں پیپلزپارٹی کے بانی کارکن آج دوسری جماعتوں کے اسٹیج پر بیٹھے ہوئے نظر آرہے ہیں‘ نواز کھوکھر‘ سید ظفر علی شاہ دو نمایاں نام ہیں‘ دونوں کسی سیاسی جماعت کے محتاج نہیں رہے‘ دونوں کی اپنی ذاتی پہچان ہے‘ 1970 میں راولپنڈی سے کرنل حبیب‘ خورشید حسن میر اور ملک جعفر پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے‘ اب پیپلزپارٹی اسلام آباد اور راولپنڈی میں کہیں نظر نہیں آرہی۔ پیپلزپارٹی نے اپنی زندگی کے پچاس سال مکمل کرلیے ہیں ان پچاس سال میں اس نے عروج بھی دیکھا ہے اور زوال بھی، اس کی قیادت نے شہرت و عزت بھی پائی ہے‘ نیک نامی و بدنامی بھی‘ پیپلزپارٹی کی تشکیل ہوئی تو شخصی طور پر سب سے پہلے چودھری ظہور الٰہی نے اسے چیلنج کیا اور اسے ایک فاشسٹ سیاسی جماعت قرار دیا‘ 1970 کے انتخابات میں جماعت اسلامی اس کی نظریاتی حریف بنی اور ایک سیاسی جماعت کے طور پر اسے چیلنج کیا‘ تب ملک میں نظریاتی سیاست کا دور تھا‘ آج ملک میں کوئی سیاسی جماعت بھی نظریاتی سیاست نہیں کر رہی اور نہ ہی اس سیاست کی بنیاد پر کارکن تیار کیے جارہے ہیں۔ سیاست میں ایک ہلہ گلہ ہے اور شخصی وفاداری کے نام پر سیاسی جماعتیں کام کر رہی ہیں‘ منشور اور دستور پیچھے رہ گئے ہیں ہر سیاسی جماعت کی قیادت پارٹی منشور اور دستور سے کئی درجے بڑا قد نکال گئی ہے پیپلزپارٹی کے دور کو تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلا حصہ بھٹو دور کا ہے کہ جب مخالف سیاستدانوں اور عمائدین کی ذلت اور ان کو بے آبرو کرنا وفادار ترین کارکنوں ڈاکٹر مبشر حسن، جے اے رحیم، پیر رسول بخش تالپور، شیخ محمد رشید، خورشید حسن میر، ملک معراج خالد، معراج محمد خان کو تنقید کرنے کے جرم میں ذلیل کرنا اور افتخار تاری جیسے کارکنوں کو دلائی کیمپ میں پہنچا دینے کا نام ہی اقتدار اور سیاست تھا اور یہی ’’بھٹو ازم‘‘ تھا بھٹو کے ہم عصر سیاست دانوں میں مسلم دنیا میں قذافی‘ شاہ فیصل‘ امریکا کے کسنجر‘ چین کے چون لائی اور ماوزے تنگ، بھارت کی اندرا گاندھی‘ متحدہ عرب امارات میں سلطان النہیان جیسی شخصیات تھیں‘ اپنے اپنے ملک میں ترقی اور عالمی تعلقات کے لیے انہوں نے ایک معیار مقرر کر رکھے تھے شخصیات نے نہایت مناسب وقت پر عوام کے سماجی، سیاسی، معاشی مسائل کو جانتے ہوئے وقت کی نبض پر راست ہاتھ رکھا ہوا تھا لیکن بھٹو کے نزدیک معیار کیا تھا؟ پیپلزپارٹی آج تک اس سوال کا جواب نہیں دے سکی۔
پیپلزپارٹی نے چار نعرے دیے یا بنیادی اصول بنائے‘ 1 اسلام ہمارا دین ہے۔ 2۔ جمہوریت ہماری سیاست ہے۔ 3۔ سوشلزم ہماری معیشت ہے۔ 4۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں۔ روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ایسا خوشگوار اور متاثر کن تھا کہ آج پچاس سال بعد بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔ مگر تعلیمی اداروں اور صنعتوں کو قومیایا گیا‘ پھر نج کاری ہوئی‘ روٹی کپڑا مکان تو یہی سے چھین لیا گیا‘ یہ نعرے آج پچاس سال گزرنے کے بعد بھی پیپلزپارٹی کی پہچان ہیں لیکن ان میں کسی ایک پر بھی پیپلزپارٹی کی چاروں حکومتیں عمل نہ کرسکیں یہ نعرے اصل میں خود ہی بہت بڑا تضاد تھے اگر پارٹی یہ یقین رکھتی تھی کہ اسلام ہمارا دین ہے تو پھر سوشلزم تو دین نہ تھا۔ اگر نظام معیشت تھا تو ہمارا دین پورا ضابطہ حیات مہیا کرتا ہے۔ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں مگر اسلام تو شورائیت اور وسیع تر مشاورت کی تلقین کرتا ہے بہرحال یہ چار اصول یا نعرے پیپلزپارٹی کی ذوالفقار علی بھٹو کے علاوہ طاقت تھے یہی طاقت بھٹو کو لے ڈوبی اور بھٹو کے بعد پیپلزپارٹی کو جواب دینے کے لیے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑا ان چاروں اصولوں کا جنازہ بار بار اٹھتا دیکھا گیا۔ یہ بات درست ہے کہ بھٹو نے آئین دیا یہ دستور پاکستان اس وقت کے معروضی حالات میں ناگزیر تھا اسی لیے اس کی منظوری اور نافذ العمل ہونے کے تمام مراحل پورے ہوئے مگر جب نافذ کرنے کی باری آئی تو بھٹو نے طاقت کے سرچشمہ عوام کے بنیادی حقوق ہی سلب کرلیے ڈی پی آر اور 16ایم پی او نے زندگیاں تنگ کردیں۔ سفارتی محاذ پر شملہ سمجھوتا ایک اہم پیش رفت تھی‘ یہ سمجھوتا ہے کیا؟ اس کے نتیجے میں کشمیر کہاں کھڑا کردیا گیا ہے؟ اور مشرقی پاکستان سے بنگلا دیش کیوں اور کیسے بنا؟ قیامت تک پیپلزپارٹی یہ داغ نہیں دھوسکے گی۔
ضیاء الحق کے بعد انتخابات ہوئے پیپلزپارٹی آئی‘ بے نظیر بھٹو جنرل اسلم بیگ کے ساتھ باقاعدہ ایک معاہدے کے تحت وزیر اعظم بنیں لیکن انیس ماہ کے بعد ہی اقتدار سے رخصت کر دی گئیں‘ تیسری بار حکومت ملی تو اپنے بھائی فاروق لغاری کے ہاتھوں اسلام آباد سے لاڑکانہ روانہ کر دی گئیں پھر جلاوطنی پر مجبور ہوئیں تاہم 9/11 نے ان کا سیاسی مقام بڑھا دیا2007 میں وطن واپس آئیں انتخابی مہم سے قبل امریکا برطانیہ اور دبئی نے مشرف بینظیر معاملات طے کروا دیے اور بالآخر 27 دسمبر 2007 کو شہید ہوگئیں۔ پارٹی کے چوتھے دور میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بن گئے۔ آصف زرداری صدر بننے میں کامیاب ہوئے۔ آصف زرداری یہ جانتے تھے کہ ان کی گنجائش کم ہے مگر حالات نے ان کو ایسے موڑ پرکھڑا کردیا تھا کہ وقت ان کا ساتھ دے رہا تھا موصوف نے مصالحت کے نام پر ہر کسی کو حصہ بقدر جثہ دیکر اپنے 5 سال پورے کیے۔ پیپلزپارٹی کے 50 سال کی تاریخ چند سطروں میں نہیں لکھی جاسکتی پیپلزپارٹی کو ہر حکمران نے توڑنے یا ختم کرنے کی کوشش کی مگر کسی کو بھی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی مگر آصف علی زرداری نے اتنی صفائی کے ساتھ یہ کام کردیا ہے کہ تاریخ میں ان کا نام دیگر حوالوں کے ساتھ پیپلزپارٹی کو ختم کرنے، عوام میں اس کو بے توقیر کرنے اور بھٹو خاندان کی سیاسی وراثت کو دفن کرنے والوں میں ہوگا۔ پیپلزپارٹی اس وقت اپنی زندگی کی ایسی سطح پر پہنچ چکی ہے کہ نہ مرتی نظر آتی ہے اور نہ اس کا احیاء ہوتا نظر آتا ہے، ایک زرداری ان سب پر بھاری ہے۔ بے نظیر بھٹو اب ماضی کے نعروں کی طرح صرف ایک نعرہ بن کر رہ گئی ہیں۔