سندھ میں گنے کے کاشتکاروں پر زیادتیاں

633

علم معاشیات کی اس بنیادی حقیقت سے دنیا واقف ہے کہ اشیا کی قیمتوں کا دارومدار ان کی طلب اور رسد پر ہے۔ مثلاً اگر طلب میں یکایک اضافہ ہوجائے اور رسد وہی کی وہی رہے تو قیمتوں میں اضافہ ہوجاتا ہے اس کا نظارہ ہم سب رمضان کے پہلے روزے پر کرتے ہیں جب پھلوں کی قیمتوں میں دگنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ دوسری طرف اگر طلب کم ہوجائے اور رسد تبدیل نہ ہو تو قیمتوں میں کمی ہوجاتی ہے اس کی مثال سخت سردیوں کے زمانے میں کولڈ ڈرنکس کی قیمتیں ہیں جو کم ہوجاتی ہیں۔ اس ساری صورت حال میں ہمارے معاشرے کا ایک فریق ایسا ہے جو بہت بری طرح متاثر ہوتا ہے اور وہ ہے ہمارا کاشتکار یا کسان جو دن رات محنت کرکے ہمارے لیے گندم، چاول، گنا، کپاس، پھل اور سبزیاں پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اس کاشتکار نے محنت کرکے، فصل کی دیکھ بھال کرکے، کھاد، پانی اور کیڑے مار دوا استعمال کرکے اور موافق آب و ہوا کے ذریعے زیادہ مقدار میں فصل اُگائی چناں چہ اگر ملک بھر میں ایک فصل کی پیداوار بہت زیادہ ہوگئی تو اس فصل کی قیمت کم ہوجاتی ہے اور بعض اوقات اتنی کم ہوجاتی ہے کہ لاگت بھی پوری نہیں ملتی منافع تو درکنار۔ اس صورت میں بعض اوقات کاشتکار اپنی ہی فصل کو آگ لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ دوسری طرف تمام کوششوں کے باوجود ناموافق اور نامناسب موسم یا کسی مخصوص کیڑے کے حملے کی وجہ سے فصل خراب ہوگئی تو اس کا نقصان بھی کاشتکار ہی کو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ یعنی فصل کی پیداوار زیادہ ہو تو مشکل اور کم ہو تو مشکل۔ کاشتکار کو اس مشکل صورت حال سے نکالنے کے لیے عوام دوست اور مخلص حکومتیں ایسے اقدامات کرتی ہیں کہ کاشتکار کو نقصان نہ ہو۔ ان اقدامات میں سب سے اہم فصلوں کی امدادی قیمت (Support Pris) کا تعین ہے یعنی سرکاری ادارے اس امدادی قیمت پر فصل خرید لیتے ہیں اور پھر یہ ان کا کام ہے کہ اس فصل کا کیا کریں مگر کسان کو اس طرح اپنی محنت کا معاوضہ مل جاتا ہے۔
پاکستان میں بھی امدادی قیمت کا نظام موجود ہے مگر یہ تمام فصلوں کے لیے نہیں ہے، دوسرے یہ کہ جس طرح حکومت کے دوسرے کام چل رہے ہیں اسی طرح کا معاملہ یہاں بھی ہے یعنی امدادی قیمت کا نظام کاغذوں میں تو موجود ہے مگر اس کا فائدہ بااثر زمیندار اور مڈل مین اُٹھا لیتا ہے اور غریب کسان کو کچھ نہیں ملتا۔ گنا پاکستان کی ایک اہم فصل ہے جو سندھ اور پنجاب میں لاکھوں ایکڑ رقبے پر کاشت کی جاتی ہے۔ ستمبر اکتوبر میں اس فصل کی کٹائی ہوتی ہے، حکومت نے پچھلے سال بھی اس کے لیے امدادی قیمت 190 روپے فی 40 کلو گرام مقرر کی تھی یعنی ملک میں موجود شوگر ملوں کو پابند کیا گیا تھا کہ حکومت کی مقرر کردہ قیمت پر کاشتکاروں سے گنا خریدیں گے، اس سال بھی پنجاب نے یہی قیمت مقرر کی اور شوگر ملوں کو پابند کیا کہ گنا خرید کر اس کی کرشنگ شروع کردیں تا کہ ایک طرف چینی کی پیداوار شروع ہوجائے اور دوسری طرف کسانوں کو اپنی فصل کا معاوضہ مل جائے اور اس زمین پر دوسری فصل کی کاشتکاری شروع کردیں۔ مگر سندھ کے شوگر ملز مالکان گنا خریدنے اور کرشنگ شروع کرنے میں ٹال مٹول کررہے ہیں ان شوگر ملز مالکان میں آصف علی زرداری، بھٹو خاندان کے دوسرے افراد اور دیگر بااثر وڈیرے اور جاگیردار شامل ہیں جو صوبائی اور قومی اسمبلی میں بیٹھے ہیں اور بعض وزارت کے فائدے سے بھی اٹھارہے ہیں۔ سال 2017ء کے شروع میں ان شوگر ملز مالکان نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ چینی کا زائد اسٹاک ملک میں موجود ہے اور عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمتیں کم ہیں چناں چہ ہمیں چینی کی برآمد پر کچھ سبسڈی دی جائے تا کہ اسٹاک کلیئر ہو اور آئندہ آنے والی کو ہم وقت پر خرید سکیں۔
چناں چہ اب وہ وقت آگیا ہے اور ملک میں چینی کا زائد اسٹاک 5 لاکھ ٹن کی شکل میں موجود ہے اس لیے یہ شوگر ملز مالکان نئی فصل کا گنا خریدنے کو تیار نہیں بلکہ حکومت سے مطالبہ کررہے ہیں کہ چینی کی برآمد پر سبسڈی 10 روپے فی کلو کے بجائے 18 روپے کی جائے ورنہ وہ نیا گنا 125 روپے فی 40 کلو کے حساب سے خریدیں گے۔ پچھلے دنوں وزیر زراعت انور علی سیال نے کاشتکاروں کے نمائندوں اور شوگر ملز مالکان سے مذاکرات کیے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔ اصل میں شوگر ملز مالکان جیسا اوپر تحریر کیا گیا سندھ کے بااثر سیاستدان اور جاگیردار ہیں وہ نہ تو کاشتکاروں کو وقت پر فصل کی ادائیگی کرتے ہیں اور دوسری طرف ان کی کوشش ہوتی ہے کہ شوگر برآمد کرکے ملک میں اس کی قلت پیدا کی جائے تا کہ قیمتوں میں اضافہ کرکے بے حساب منافع کمایا جائے اس صورت حال میں گنے کے غریب کاشتکاروں کا زمین پر تو کوئی سننے والا نہیں صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی انہیں طاقتور اور ظالم شوگر مافیا سے نجات دلا سکتی ہے۔