جمہوری تماشا

421

ا ب یہ ایک نیا تماشا شروع ہو گیا ہے ۔مسلم لیگ ن کے صدر اور نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئر مین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ہاتھ ملانے کو بے چین ہیں اور دوسری طرف سے صاف انکار ہے ۔ پچھلے دنوں میاں نواز شریف نے آصف علی زرداری سے ہاتھ ملانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا لیکن ملاقات کی کوشش گزشتہ تین چار ماہ سے جاری ہے ۔ ایک طرف سے اصرار اور دوسری طرف سے انکار ۔ لیکن اس تجدید تعلقات اور گریز کی وجہ کیا ہے؟ میاں نواز شریف عدالت عظمیٰ کی طرف سے نا اہل تو ضرور قرار دیے گئے ہیں لیکن سیاست سے باہر نہیں ہوئے ۔ وہ حکمران جماعت کے صدر ہیں اور یہ بھی کوئی راز نہیں کہ حکومت وہ ہی کر رہے ہیں ، شاہد خاقان عباسی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ڈمی وزیر اعظم ہیں اورمیاں نواز شریف کے کسی حکم سے سر تابی نہیں کر سکتے ۔ اس کی تازہ مثال تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا معاملہ ہے ۔ اس حوالے سے کہا جاتا ہے کہ وزیر اعظم تو ان کا استعفا منظور کرنا چاہتے تھے لیکن میاں نواز شریف کو اپنے سمدھی کی توہین پسند نہیں اور وہ انہیں بدستور وزیر خزانہ دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اور بھی کئی ایسے معاملات ہیں جن سے ظاہر ہے کہ حکومت میاں نواز شریف اور ان کا قریبی حلقہ ہی چلا رہا ہے ۔ اب پیپلز پارٹی کی مدد کی ضرورت یوں آن پڑی ہے کہ حکومت کو نئی حلقہ بندیوں سے متعلق آئینی ترمیم کو سینیٹ سے منظور کروانا ہے ۔ مخمصہ یہ ہے کہ ایوان بالا میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے چنانچہ قومی اسمبلی سے منظور کردہ کوئی بھی بل وہاں جا کر مسترد ہو جاتا ہے یا اس کے بر عکس ہوتا ہے جیسا کہ نا اہل نواز شریف کی پارٹی صدارت کا معاملہ ہے جو اب مشترکہ پارلیمانی اجلاس میں جائے گا ۔جہاں تک حلقہ بندیوں کا معاملہ ہے تو اس کا تصفیہ جلد نہ ہوا تو عام انتخابات وقت پر نہیں ہو سکیں گے ۔ چنانچہ اس کے لیے پیپلز پارٹی کا تعاون درکار ہو گا ۔ دوسری طرف آصف علی زرداری پنجاب کو فتح کر کے آئندہ مرکز میں حکومت بنانے کی توقع لگائے ہوئے ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ آئندہ وزیر اعظم بلاول زرداری ہو گا اور وہ پھر صدر مملکت ہوں گے چنانچہ وہ میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن سے مصالحت پر تیار نہیں ہیں ۔ پنجاب پیپلز پارٹی کی گود میں جا گرے گا یا نہیں یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا اور ’’ہزاروں لغزشیں حائل ہیں لب تک جام آنے میں‘‘ یہ حقیقت ہے کہ پنجاب ہی نے پیپلز پارٹی اور اس کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کو ملک پر حکمرانی کا موقع دیا تھا اور سب سے زیادہ کامیابی پنجاب ہی سے ملی تھی لیکن جلد ہی پیپلز پارٹی کی صناعی کا رنگ اُتر گیا حالانکہ بھٹو کی پھانسی کے باوجود پیپلز پارٹی پنجاب پر اپنی گرفت رکھ سکتی تھی لیکن ایسا نہیں ہو سکا ۔ اس کی ایک وجہ پیپلز پارٹی کے اندرونی اختلافات بھی تھے ۔ بہر حال ، یہ طویل تاریخ ہے ۔ جنرل ضیاء الحق اور پنجاب کے مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر جنرل غلام جیلانی کی آشیر واد سے پنجاب نواز شریف کے ہاتھ لگا اور جنرل پرویز نے یہ صوبہ چودھری برادران کی جھولی میں ڈال دیا ۔ قائد اعظمم مسلم لیگ بھی پنجاب کی دعویدار ہے اور عمران خان بھی اسے فتح کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ فی الوقت تو یہ معاملہ آصف زرداری کو ن لیگ یا میاں نواز شریف سے تجدید ملاقات سے روکے ہوئے ہے۔ آصف زرداری کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال کے ذمے دار میاں نوازشریف ہیں ۔ انہیں صرف اپنی ذات کے لیے میثاق جمہوریت یاد آتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں ہمیشہ ڈسا گیا ۔ لیکن مومن تو ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جاتا اور وہ کئی بار ڈسے گئے ۔ آصف زرداری کو شکوہ ہے کہ پیپلز پارٹی کو میثاق جمہوریت کا نقصان ہی ہوا ۔ لیکن کیا یہ بھی حقیقت نہیں کہ غیر ملکی طاقتوں کی نگرانی میں ہونے والے میثاق جمہوریت ہی کی وجہ سے بے نظیر اور میاں نواز شریف ملک میں واپس آ سکے اور اسی کی وجہ سے آصف علی زرداری کی لاٹری نکلی اور وہ صدر مملکت بن گئے ۔ اس کے لیے محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی جان بھی قربان کی ۔ آصف زرداری کہتے ہیں کہ نواز شریف آخری وقت میں انہیں چھوڑ کر چلے گئے ۔ یہ اس واقعے کی طرف اشارہ ہے جب زرداری نے فوج کوکو اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تھی اور کہا تھا کہ آپ تو تین سال میں چلے جائیں گے ، ہمیں تو یہیں رہنا ہے ۔ اس پر میاں نواز شریف نے ناشتے پر زرداری سے ملاقات منسوخ کر دی تھی کہ کہیں مقتدر طبقے ان کی اینٹ سے اینٹ نہ بجا دیں ۔ زردای نے اسی کو چھوڑ کر چلا جانا کہا ہے حالانکہ خود آصف زرداری سب کو چھوڑ چھاڑ کر ملک سے باہر چلے گئے تھے ۔ ناشتے پر نہ ملنے کا صدمہ آج بھی زرداری کو ہے ۔ ان دونوں کے تعلقات میں بار ہا اُتار چڑھا آتا رہا ہے ۔ بھور بن میں زرداری نے قرآن کریم پر حلف اٹھایا تھا اور پھر اس سے منحرف ہو گئے ۔ آصف زرداری اور بلاول بھٹو نے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات سے بھی انکار کر دیا تھا اور وزیر خارجہ خواجہ آصف کی بیٹی کی شادی میں بھی شریک نہیں ہوئے تھے جب کہ خواجہ آصف اور زرداری میں پرانی دوستی ہے ۔ کہا تو یہ جاتا ہے کہ سیاست میں دروازے بند نہیں ہوتے لیکن زرداری نے تمام دروازے بڑی مضبوطی سے بند کر دیے ہیں ۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ نواز شریف تو ملاقات کے خواہش مند ہیں لیکن ان کے ساتھی خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ اس ملاقات کی کوئی ضرورت نہیں اور ہم مرے نہیں جار ہے ہیں ۔ رانا ثناء اللہ بھی اپنا وجود منوانے پر تُلے ہوئے ہیں اور کہتے ہیں کہ زرداری نے پیپلز پارٹی کو ڈبودیا ، نواز شریف کو ان کے سہارے کی ضرورت نہیں ‘ وہ جمہوریت کی اینٹ سے اینٹ بجا رہے ہیں ۔ پھر نواز شریف ملنے کی خواہش کیوں کر رہے ہیں ۔ ایک اور تماشا یہ کہ زرداری نے تو ملنے سے انکار کر دیا لیکن بر خوردار بلاول کہہ رہے ہیں کہ ہم نواز شریف ، عمران خان سمیت سب کے ساتھ چلنے کوتیار ہیں اور امید کرتے ہیں کہ نواز شریف بھی جمہوریت کی قدر کریں گے ، حالانکہ جمہوریت کے خلاف جب بھی کوئی سازش ہوئی نواز شریف اس کا حصہ بنے ۔ یعنی ملاقات پر اصرار اور انکار دونوں ہی جمہوریت کے لیے ہے ۔ اور یہ سب جمہوری تماشا ہے ۔