اس کے چہرے پہ جال شکنوں کا ہر شکن اک نئی کہانی ہے اور اس کے سفید بالوں میں اس کی گزری ہوئی جوانی ہے بوجھ دنیا کا اٹھایا تھا ان ہی ہاتھوں نے آج ان میں خفیف سی لرزش کل وہ سایہ تھا، آج بے سایہ اس کو کہتے ہیں وقت کی گردش اس کی آنکھوں میں اک تلاش سی ہے اور ہونٹوں پہ ایک پیاس سی ہے آج شاید کوئی اپنا ملے دل میں پوشیدہ ایک آس سی ہے اولڈ ہائوس کے سارے بوڑھوں کی اک جیسی ہی تو کہانی ہے بے ضمیری کی ایک علامت ہے مُردہ قوموں کی یہ نشانی ہے