سید اﷲ داد شاہ نوشکی
کسی گاؤں میں ایک غریب چرواہارہتا تھا وہ روزانہ چندبکریوں کو لے کر قریب پہاڑی پر چلا جاتا جہاں بکریاں چرتی رہتی تھیں۔ چرواہا بہرا تھا مگر اس سے اس کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ایک دن ایسا ہوا کہ اس کی بیوی اسے کھانادینا بھول گئی اور پھر بچے کے ہاتھ بھی نہیں بھجوایا ۔ چرواہے نے سوچا میں گھر جا کر کھانا لے آؤں دن بھر بھوکے رہنا میرے لیے دشوار ہوگا۔ اتنے میں اس نے دیکھا کہ ایک گھسیارا ( گھاس کاٹنے والا) پہاڑ کے کنارے گھاس کاٹ رہا ہے۔ چرواہا اس کے پاس گیا اور کہا بھائی تم ذرا میری بکریوں کا خیال رکھنا میں گاؤں جاکر کھانا لے آؤں۔ میری بیوی آج کھانا دینا بھول گئی ہے اتفاق سے گھسیارا ببی بہراتھاو ہ ایک لفظ بھی نہ سن سکا بلکہ اور الٹا غلط سمجھا۔ وہ بولا میں تم کو اپنی گھاس کیوں دوں ، یہ تو میں اپنے جانوروں کے لیے کاٹ رہاہوں میرے پاس ایک گائے اور دو بھیڑیں ہیں جن کے لیے مجھے دور دور سے گھاس لانا پڑتی ہے۔ نہیں نہیں میرا پیچھا چھوڑو، میں تمہاری طرح کے لوگوں سے دور ہی رہنا چاہتا ہوں، جو دوسروں کی چیزیں ہتھیالیتے ہیں۔ اتنا کہہ کر اس نے اپنا ہاتھ ہلایا اور زور زور سے ہنسنے لگا۔ چرواہا اس کی بات نہ سن سکا وہ بولا شکریہ میرے دوست تم نے راضی ہوکر مجھ پر بڑا احسان کیا میں بہت جلد آجاؤں گا یہ کہہ کر وہ تیزی سے گاؤں کی طرف چل دیا۔
اپنی جھونپڑی میں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ بیوی بخار میں مبتلا ہے اور پڑوس کی ایک عورت اس کی دیکھ بھال کررہی ہے چرواہے نے کھانا کھایااور پھر سیدھا پہاڑی کی طرف روازنہ ہوگیا اس نے اپنی بکریوں کو گنا سب بکریاں موجود تھیں گھسیارا اپنے کام میں لگا ہوا تھا۔ چرواہے نے اپنے دل میں کہا یہ گھسیارا کتنا ایمان دار ہے میری بکریوں کی نگرانی کرتا رہا مگر شکریہ کا بھی خواہش مند نہیں ہے لنگڑی بکری اسے دے دینی چاہیے، یوں بھی مجھے اس کو ذبح تو کرنا ہی پڑے گا۔
یہ سوچ کر اس نے لنگڑی بکری کو اپنے کندے پر اٹھایا اور کھسیارے کے پاس پہنچ کر بولا بھائی میری بکریوں کی نگرانی کرنے کے صلہ میں یہ تحفہ قبول کرو اس بکری کو ذبح کرکے اس کاگوشت استعمال کرلینا۔ مگر گھسیارا ایک لفظ بھی نہ سن سکا وہ غصے سے چلایا کرکہا، چرواہے مجھے نہیں معلوم کہ تمہاری غیر حاضری میں کیا ہوا تمہاری بکری کی ٹانگ ٹوٹ گئی تو میں اس کا ذمہ دار نہیں میں تو گھاس کاٹ رہاتھا چلے جاؤ ورنہ نہ ماردوں گا۔ چرواہا سمجھ نہیں سکا کہ گھسیارا ناراض کیوں ہورہا ہے اس نے ایک آدمی کو آواز دی جو گھوڑے پر سوار تھا۔ اور کہنے لگا جناب عالمی مہربانی کرکے مجھے یہ بتائیے کہ یہ گھسیارا کیا کہہ رہا ہے۔ میں بہرا ہوں میری سمجھ نہیں آتا کہ یہ میرا تحفہ قبول کیوں نہیں کررہا اس کے بعد چرواھا اور گھسیارا دونوں چلا چلا کر اس مسافر سے باتیں کرنے لگے وہ سوار گھوڑے سے اترکراْن کے قریب آگیا۔
یہ سوار گھوڑے چرایا کرتا تھا اور یہ بھی بہراتھا لہٰذا وہ بھی نہیں سمجھ سکا کہ یہ دونوں کیا کہہ رہے ہیں۔ وہ ان دونوں سے اس جگہ کا نام پوچھنا چاہتا تھا لیکن جب اس نے ان دونوں کو ناراض ہوکر چلاتے دیکھا تو گھبرا کربولا ہاں بھائی میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ گھوڑا میں نے چرایا ہے مگر مجھے یہ معلوم نہ تھا کہ تمہارا ہے، مجھے معاف کردو۔
اتنے میں گھسیارا چلایا، بکری کے لنگڑے ہونے میں میرا کوئی قصور نہیں۔چرواہا چلایا اس سے پوچھو کہ یہ میری تحفہ قبول کیوں نہیں کرتا، میں تو شکریہ کے طور پر اس کو یہ دے رہا ہوں۔ اس پر جور بولا۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ یہ گھوڑا میں نے چرایا ہے مگر میں بہرا ہوں اور میں نہیں سمجھ سکتا کہ تم دونوں میں سے یہ گھوڑا کس کا ہے۔
اسی اثناء میں ایک بوڑھا وہاں آگیا۔ گھسیارا دوڑ کر اس کے پاس پہنچا اور بولا محترم بزرگ میں بہرا ہوں اس لیے میں نہیں سمجھ سکتا کہ یہ دونوں کیا کہہ رہے ہیں۔ مہربانی کرکے آپ بتائیے کہ یہ کیوں چلارہے ہیں۔
دل چسپ بات یہ ہوئی کہ بوڑھا گونگا تھا لہٰذا وہ انہیں کوئی جواب نہیں دے سکتا تھا ، بہرحال وہ ان سب کے قریب آیااور ان تینوں کے چہرے غور سے دیکھنے لگا اس وقت تک تینوں بہرے خاموش ہوچکے تھے بوڑھا اتنی دیر تک ان کے چہروں کو گھورتا رہا کہ وہ گھبراگئے اس کی چمکدار سیاہ آنکھیں تھیں۔ وہ دراصل گھور کر اصل حقیقت کا پتا چلانا چاہتا تھا۔ لیکن یہ تینوں ڈرنے لگے کہ یہ بوڑھا ان پر کہیں جادو نہ کردے، چنانچہ چور فوراََ گھوڑے پر سوار ہوکر تیزی سے بھاگ گیا چرواہا نے جلدی جلدی اپنی بکریوں کو جمع کیا اور انہیں بھگا کر ااپنے گھر کی طرف تیزی سے روانہ ہوگیا۔ گھسیارے نے اپنی نظریں نیچی کرلیں اورگھاس کا گھٹرا اپنے کندھے پر اٹھا کر تیزی سے اپنے گھر کی طرف چلا دیا… بوڑھا انہیں جاتے دیکھتا رہا، چند منٹ بعد وہ بھی چلا گیا۔