جانوروں کی آہ

356

آسیہ پری وش
تیمور جنگل میں سے گزر رہا تھا کہ اچانک سے ایک شیر اس کے سامنے آگیا۔ شیر کو اچانک سے سامنے دیکھ کر چیخیں مارنا اور دوڑنا شروع کردیا۔ وہ آگے تھا تو شیر اس کے پیچھے۔
شیر سے ریس لگاتے اس کا پاؤں زمین پر گری ٹہنیوں میں الجھ گیا اور اس کا سر گرتے وقت ایک پتھر سے ٹکرا گیا اور پھر وہ بیہوش ہوگیا۔ جب تیمور کو ہوش آیا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کا سانس اوپر کا اوپر اور نیچے کا نیچے ہی رہ گیا۔ اسے درخت سے رسیوں سے اپنے بندھے ہونے کا بھی اتنا احساس نہ ہوا۔ صرف یہ پتا چلا کہ اس کے اردگرد بہت سارے جانور کھڑے تھے اور وہ سب ہی اس کو غصے سے گھور رہے تھے۔
آں ہا۔ ہمارے شکار کو ہوش آگیا۔ اب ہم مزے سے اس کو کھائیں گے۔ تیمور کو ہوش میں آتے دیکھ کر شیر آنکھوں میں چمک لیے اس کی طرف بڑھا۔
نہیں نہیں۔ مجھے مت کھاؤ۔ مجھے چھوڑ دو۔ مجھے جانے دو۔ تیمور ڈر کر رونے لگا۔
کیوں؟ جب تم ہمیں پکڑتے ہو تو پھر ہمیں جانے یا چھوڑ دیتے ہو جو ہم تمہیں جانے دیں؟؟ ویسے بھی بڑی مشکل سے تو ایک انسان ہاتھ لگا ہے۔ خوبصورت سے ہرن کی آنکھوں اور لہجے میں سفاکی اْتر آئی جس نے تیمور کے معصوم دل کو مزید خوفزدہ کردیا۔
تم لوگ ہمیں درندہ کہتے ہو اور جب تم انسان ہمیں مارتے ہو تو بڑے فخر اور خوشی سے اسے اپنا کارنامہ بتاتے ہو اور سب سے داد وصول کرتے ہو۔ شیر غصے سے دھاڑا۔
لیکن اس میں میرا کیا قصور؟ میں نے تو کچھ نہیں کیا ان سب غصے سے بھرے جانوروں کے سامنے تیمور مجبور و بیبس بنا گھگھیایا۔
تو پھر اس میں ہمارا یا ہمارے بچوں کا کیا قصور جو تم جیسے انسان ہمیں اور ہمارے بچوں کو قید کرکے بازاروں میں نچاتے پھرتے ہو اور تم بچوں کے سامنے ہمارا تماشا دکھا کر خود ہماری وجہ سے کما کے ہمیں تقریبن بھوکا چھوڑ دیتے ہو۔ ریچھ نے کہا تو بندر بھی ریچھ کی تائید میں آگے بڑھا۔ ہاں تمہیں بھی ایسے ہی تڑپنا چاہیے۔
تم انسان لوگ ہمیں بھی قید کردیتے ہو اور اگر ہم آزاد بھی رہتے ہیں تو پھر بھی ہر لمحے ہمیں یہ خوف بھی دیتے ہو کہ کسی بھی لمحے کہیں سے بھی کوئی گولی یا پتھر آکے ہمیں ہمیشہ کے لیے معذور، بیبس یا مار نہ ڈالے۔ رنگین پروں والے خوبصورت پرندے نے بھی سب جانوروں کے ساتھ اپنی جارحانہ تال ملائی۔
دیکھو مجھے چھوڑ دو۔ میں نے تو تم سب کے ساتھ کچھ نہیں کیا۔
تم لوگوں کو اپنی آزادی پیاری ہے اور ہماری آزادی کی کوئی معنی نہیں؟ زرافہ بولا۔
امی ابو آپ کہاں ہیں؟ یہ درندے مجھے کھاجائیں گے۔تیمور خود کو رسیوں سے چھڑوانے کی کرتے ہوئے رو رہا تھا۔
جب ہم جانور تم انسانوں کی قید میں ہوتے ہیں تو تم لوگ ہم پہ ٹکٹ لگاتے ہو۔ اس وقت ہم جانور تم انسانوں کے لیے تفریح ہوتے ہیں اور جب تم انسان ہم جانوروں کے شکنجے میں آتے ہو تو ہم تفریح سے درندے بن جاتے ہیں۔
واہ کیا انصاف ہے تم انسانوں کا۔ یوں سب جانور اپنی اپنی باتیں کرتے خطرناک تیوروں سے درخت سے بندھے تیمور کی طرف بڑھتے جارہے تھے جبکہ تیمور اپنے ماں باپ کو مدد کے لیے پکارتے چیخ رہا تھا رو رہا تھا لیکن کسی بھی جانور کو اس پر رحم نہیں آرہا تھا۔ آتا بھی کیسے۔ کبھی کسی شکاری کو اپنے سامنے شکار دیکھ کر اس پر رحم آیا ہے؟
کیا ہوا ہے بیٹا؟ تیمور اْٹھو۔ تیمور کی امی نیند میں چیختے روتے تیمور کو جگانے کی کررہی تھیں۔ آخر تیمور چیختا ہوا اْٹھ بیٹھا۔ اور اپنے سامنے جانوروں کے بجائے ماں کو دیکھ کر وہ ماں کے سینے سے لگ کر بیاختیار ہچکیوں سے رونے لگا۔ بہت سارا رونے اور پانی پینے کے بعد اس نے امی ابو اور چچا کو (جو کہ اس کے رونے پر دوسرے کمرے سے اْٹھ آئے تھے۔) جانوروں میں گزارا اپنا خواب سنایا۔ تیمور کے ابو نے خواب سن کر ہنستے ہوئے بیٹے کی پیٹھ تھپکی۔ بیٹا ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ جانور نہ کبھی بول سکتے ہیں نہ ہی ہم انسانوں پہ حاوی ہوسکتے ہیں۔ یہ تو صرف ایک خواب تھا۔ اگر ابھی سے ہمارے بیٹے نے یہ خوف پالنے شروع کردیے تو پھر بڑا ہوکر اپنے باپ اور چچا کی طرح ایک اچھا شکاری کیسے بنے گا۔
لیکن بابا میں نے کسی جانور کا شکار نہیں کرنا اور نہ ہی اب آپ لوگ کوئی شکار کریں گے۔ باپ کی بات سن کر وہ گھبرا گیا۔ تیمور کی بات پہ اس کا چچا ہنس پڑا۔ بھائی سن رہے ہیں اپنے لاڈلے کی باتیں۔ آپ تو کہہ رہے تھے اسے ابھی سے بندوق چلانا سکھادیتے ہیں۔ نہیں بابا میں نے شکاری نہیں بننا۔ اس وقت تو تیمور کے بابا اور چچا نے اس کی باتوں کو ہنسی میں اْڑادیا لیکن تیمور کے دل و دماغ سے یہ خواب کبھی بھی نہیں نکل سکا۔
اس واقعے کو دو سال گزر چکے تھے۔ آج پھر ان دونوں بھائیوں کا شکار پہ جانے کا پروگرام تھا اور بہت منع کرنے کے باوجود بھی وہ آج زبردستی تیمور کو بھی ساتھ لے جارہے تھے۔ جنگل میں بھی تیمور نے ان دونوں کو بہت تنگ کیا۔ بار بار ان کو نشانہ لیتے وقت شکار کرنے سے منع کرتا جس کی وجہ سے شکار چوکنا ہوکر بھاگ جاتا یا پھر نشانہ چوک جاتا۔ تیمور کی ایسی موجودگی سے جھنجھلاتے ہوئے بھی وہ دونوں بھائی اس بات سے بیخبر معصوم جانوروں کا شکار کرنے میں لگے ہوئے تھے کہ آج ایسے ہی اک نشانے سے ان کی زندگی عجیب دوراہے پر آنے والی تھی۔
پھر ہوا کچھ یوں کہ تیمور کا چچا ایک پرندے پر اپنا نشانہ ٹھیک کررہا تھا اور ابھی بندوق کے ٹریگر کو دبانے ہی والا تھا کہ تیمور کے باپ کی گولی سے نشانہ بننے والا پرندہ اس کے پاؤں کے سامنے آکر گرگیا۔ چچا جو صحیح نشانہ لینے کے چکر میں تھوڑا آگے بڑھا تو اس کا پاؤں اس پرندے میں الجھ گیا۔ اور گولی چلنے کے باوجود اس کا نشانہ چوک گیا لیکن نشانہ چوکنے کے باوجود ایک چیخ بھی سنائی دی۔ چیخ کی آواز پہ تیمور اور اس کے چچا نے گھبرا کر سامنے دیکھا تو تیمور کا باپ جو اپنا شکار کیا ہوا پرندہ دیکھنے خوشی خوشی آرہا تھا گولی سیدھی ان کو جاکر لگی تھی۔ تیمور اور اس کا چچا ان کی طرف بھاگے لیکن تھوڑی دیر کے بعد شکاری’ شکار کرتے کرتے خود شکار ہوچکا تھا۔ تیمور کا چچا اپنے بھائی کو مرا ہوا دیکھ کر پھانسی کے خوف سے وہاں سے بھاگ گیا۔
تیمور جب باپ کی لاش کے ساتھ گھر میں داخل ہوا تو گھر میں اک کہرام مچ گیا۔ باپ کی لاش کو دیکھ کر تیمور کو زندگی کا دوسرا بڑا سبق ملا کہ جو شخص دوسروں کو برباد کرتا ہے (چاہے وہ جانور ہی کیوں نہ ہوں) اکثر اسی جال سے وہ خود بھی شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے چچا اس دن کے بعد سے گھر واپس نہیں آئے جبکہ تیمور نے اب اپنا یہ مشن بنالیا تھا کہ وہ سب کو اپنی کہانی سنا کر یہ سبق دیتا پھرتا کہ کبھی کبھی ان جانوروں کی آہوں سے بھی ہمارا گھر اْجڑ سکتا ہے۔