حذیفہ عبداللہ
چوتھی اور آخری قسط
غار ایک دم روشن ہو گئی غار کے منہ پر جو مٹی کا تودہ جس سے غار کا منہ بند ہو گیا تھا طوفانی بارش سے بہہ گیا تودھے کے بہے جانے سے پانی کا ایک ریلا غار میں داخل ہونا شروع ہو گیا تینوں دوست ایک دوسرے کو سہارہ دیتے باہر نکلنے کی کوشش کرنے لگے پانی کا بہا بہت زیادہ تھا لیکن بڑی کوشش اور محنت ایک دوسرے کو سہارہ دیتے ہوئے غار سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ باہر نکلتے ہی تینوں نے اللہ کا شکر ادا کیا اور واپسی کا فیصلہ کیا فراز نے کہا کہ بارش تیز ہے ہمیں بارش کے رکنے یا ہلکی ہونے کا انتظار کرنا پڑے گا اور ہمارے راہ میں ایک نہر بھی حائل ہے موسم کے تیور دیکھ کر ہی کوئی فیصلہ کرنا پڑے گا اختر اور دانش نے اس پر اتفاق کیا وہ قریب ہی ایک محفوظ جگہ تلاش کرنے میں کامیاب ہو گئے جہاں بیٹھ کر بارش کے رکنے کا انتظار کیا جا سکتا تھا جب بارش کی تیزی میں کمی آئی تو انہوں نے نہر کا جائزہ لیا نہر کے پانی میں خاصا اضافہ ہو چکا تھا اور اسی جگہ کی تلاش میں چل پڑے جہاں نہر کی چوڑائی کم ہو وہاں سے نہر پار کی جائے آخر انہیں وہ مقام مل ہی گیا اور تینوں دوست ایک دوسرے کا ہاتھ مضبوطی سے تھامے نہر کو پار کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ دن چڑھ چکا تھا اور جنگل کا سفر ابھی باقی تھا ساتھ ہی انہیں بھوک ستا رہی تھی اور کھانے کا کوئی سامان نہیں تھا فراز نے کہا کہ ان حالات میں کچھ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم ہمت اور حوصلے سے اپنا سفر جاری رکھیں اور ہم میں سے جو کمزور دیکھائی دے اسے سہارہ دیں اس کی ہمت بندھائیں اس طرح ہی ہم اپنی منزل یعنی گھر پہنچ سکتے ہیں۔
فراز کے گائوں تک پہنچتے پہنچتے دن ڈھل چکا تھا اور شام ہو چلی تھی تینوں کے والد پریشان اور بے بس بچوں کی خریت سے واپسی کے انتظار میں تھے ہر شخص کے لبوں پر دعائیں تھیں۔
اچانک ایک شور اٹھا دیکھو وہ آرہے ہیں بچے فراز، اختر اور دانش ایک دوسرے کو سہارہ دیتے ہوئے چلے آرہے تھے گائوں والوں نے بڑھ کر ان کو تھام لیا اور گھر تک لائے تینوں تھکن سے چور اور بھوک سے نڈھال تھے کچھ دیر آرام اور کھانا وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد ان کے والدین نے تینوں سے ماجرا پوچھا کہ کیا ہوا تھا۔
فراز نے مہم جوئی کی کہانی سنائی اور کہا کہ میں ہی اس غلطی کا ذمہ دار ہوں اس پر اختر اور دانش نے کہا کہ ہم بھی اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی عقل دی ہے ہم فراز کے منصوبے سے اختلاف کر سکتے تھے اور فراز کو اس مہم جوئی سے باز رکھ سکتے تھے۔
تینوں کی بخیریت واپسی پر پورا گائوں خوش تھا۔ فراز کے والد نے تینوں دوستوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلا سوچے سمجھے اور بڑوں کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرنا چاہیے اور خزانے کی تلاش اور اس طرح مال و اسباب حاصل کرنے کی جستجو نہیں کرنا چاہیے۔ بلکہ محنت سے ہی مقام بنا کرتا ہے آپ کے پڑھنے کا وقت ہے آپ پڑھائی پر توجہ دیں اور فضول قسم کے مطالعے سے گریز کرنا چاہیے۔ تینوں نے عہد کیا اور وہ آئندہ فضول کہانیوں کے بجائے اچھی کتب کا مطالعہ کریں گے جو ان کے لیے مفید ہوں۔