پھول کا جواب

718

احمد عدنان طارق
ایک دن ایک شہزادہ اپنے باغ کی سیر کو آیا۔ اُس باغ میں ایک ندی بھی بہتی تھی۔ جسکی لہروں کی آواز سے یوں لگتا تھا جیسے وہ گانا گارہی ہو۔ باغ میں بڑے بڑے درخت تھے جن کے سائے کی وجہ سے ہمیشہ وہاں سے ہمیشہ وہاں ٹھنڈک رہتی تھی۔ بہت ہی نرم ملائم گھاس تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے پورے باغ میں سبز قالین بچھا ہو۔ اس گھاس میں انتہائی خوبصورت پھول بھی اُگے ہوئے تھے۔ شہزادہ ندی کے قریب دم بخود کھڑا ہوگیا اور پھر اونچی آواز میں کہنے لگا’’اے پیارے درختو۔ پھولو اور بہتے ہوئے پانی؛ تم سب میرے لیے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہو۔ لیکن آج میری درخواست مانو اور مجھے بتاؤ کہ تم میرے لیے کیا کرتے ہو؟ اے بوڑھے بدگدا! پہلے تم بتاؤ میرے لیے کیا کرتے ہو؟‘‘ شہزادے کی درخواست سن کر بوڑھے بدگدھ سے ایک خوشی سے بھر پور آواز آئی۔ ’’ شہزادہ عالم! میں سارا دن دھوپ اور گرمی میں یہاں کھڑا رہتا ہوں اور اپنی شاخیں بچھائے رکھتا ہوں۔ سہ پہر کے بعد گھوڑے اور بھیڑ بکریاں آتی ہیں اور میرے سائے میں آرام کرتے ہیں۔ یہ میرا کام ہے جو میں سارا دن آپ کے لیے کرتا ہوں۔ شہزادے نے بوڑھے برگد کا جواب سنا اور اُسے شاباز دی۔ شہزادہ پھر ندی کی طرف مڑا جو اُس کے پیچھے بہہ رہی تھی اور اُس سے پوچھنے لگا۔ اے پیاری ندی ! تم میرے لیے سارا دن کیا کرتی ہو۔ ندی نے گنگناتے ہوئے جواب دیا، پیارے شہزادے ! میں سارا دن گنگناتے ہوئے اس باغ سے گزرتی ہوں۔ پیاسے جانور میرے پانی سے اپنی پیاس بجھاتے ہیں اور میری وجہ سے باغ ہرا بھرارہتا ہے۔ شہزادے نے مسکر اکر گنگناتی ندی کو بھی شاباش دی۔ اسی گنگناتی ندی کے کنارے ہر ایک سفید گل بہاری کا پھول اُگا ہوا تھا۔ گل بہاری نے جب شہزادے کے سوال اور بوڑھے برگد اور گنگناتی ندی کے جواب سنے تو آپ سے کہنے لگی۔ کاش شہزادہ مجھ سے یہ سوال نہ ہی کرے کہ میں اُس کے لیے کیا کرتا ہوں؟ میں تو کچھ بھی نہیں کرتا۔ ‘‘ لیکن اُسی وقت شہزادے کی نظر گل بہادی کے پھول پر پڑی۔ اُس نے پھول سے پوچھا؛’’ اے پیارے گل بہاری ! تم میرے لیے کیاکرتے ہو؟‘‘ گبھرائے ہوئے پھول نے سرجھکا لیااور سوچنے لگا کہ شہزادے کو کیا جواب دے؟ وہ بہت چھوٹا سا پھول تھا۔ پھر شرماتے ہوئے اُس نے اپنا چہرہ اٹھایا اور اپنی پیاری آواز میں کہنے لگا؛‘‘ شہزادہ عالم ! میں کوشش کرتا ہوں کہ آپ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے رہیں۔ میں بہت ننھا ساپھول ہوں۔ اس لیے کوشش کرتا ہوں کہ میں سب سے بہترین پھول بنوں۔‘‘ شہزادہ مسکرایا اور کہنے لگا بہت اچھے ننھے گل بہاری میں یہاں سے جاؤں گا تو تمام ننھے بچوں کو تمہارا جواب بتاؤں گا اور آج سے میں تمام دنیا کو بھی درخواست کروں گا کہ تمہیں ننھے بچوں کا پھول کہا جائے۔ ننھے گل بہاری کا رنگ شرمانے سے گلابی ہوگیا اُس نے اپنا چہرہ پنکھڑیوں میں چھپا لیا اور آج تک وی اکثر اپنا چہرہ چھپائے رکھتا ہے۔ بچو! آپ بھی اپنے ماں باپ کے ننھے پھول ہو۔ صاف ستھرے ہو کر ماں بابا کے سامنے آیا کرو تاکہ گل بہاری کے پھول کی طرح وہ بھی تمہیں زیادہ پیار کریں۔ اتنا تو تم کر ہی سکتے ہونا!