مرکز اطلاعات فلسطین
سن1948ء کے دوران قابض صہیونی ریاست کے غاصبانہ قبضے میں آنے والے فلسطینی شہروں میں بسنے والے عرب شہریوں کی اکثریت اپنے وطن سے محروم کردی گئی۔ صہیونی جرائم پیشہ اور جلاد صفت مافیاؤں نے 85 فی صد فلسطینیوں کو ان کے گھر بار سے نکال دیا۔ فلسطین کی 531 بستیوں کو صفحہ ہستی سے مٹا ڈیا گیا اور قابض اسرائیلی فوج نے 78 فی صد فلسطینی رقبے پر غاصبانہ تسلط قائم کیا گیا۔ فلسطین کے ایک لاکھ 55 ہزار فلسطینی صہیونی ریاست کی براہ راست یا بالواسطہ طور پر اپنا غلام اور دست نگر بنا دیا گیا۔
مقبوضہ فلسطین کے جن علاقوں پر نام نہاد صہیونی ریاست کا قبضہ ہے وہاں فلسطینی باشندوں کی تعداد 21 فی صد ہے۔ مگر ان فلسطینیوں کو روز مرہ کی بنیاد پر نسلی، مذہبی، سیاسی، سماجی اور معاشی ظلم و تفریق کاسامنا ہے۔ فلسطینی آبادی بنیادی انسانی سہولیات،بالخصوص تعلیم، صحت اور معاشی حقوق سے محروم ہیں۔
اسرائیلی نسل پرستی
اسرائیل میں سرکاری سطح پر فلسطینی عرب باشندوں کے ساتھ برتے جانے والے رویے، سلوک اور قوانین ہراعتبار سے نسل پرستانہ ہیں۔ صہیونی تحریک کی طرف سے فلسطینیوں کے خلاف فکری نسل پرستی مسلط کی گئی ہے۔ فلسطینیوں کو نیچا دکھانے اور انہیں مشکلات سے دوچار کرنے کے لیے صہیونی ریاست کے ذریعے ایسے نسل پرستانہ قوانین وضع کیے جاتے ہیں جن سے فلسطینیوں کے گرد عرصہ حیات مزید تنگ کردیا گیا ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق صہیونی ریاست 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے باشندوں کے خلاف نسل پرستانہ پالیسیوں پرعمل پیرا ہے۔ فلسطینی شہریوں کے خلاف کنیسٹ (پارلیمان) سے نئے قوانین وضع کرائے جاتے ہیں۔
ذیل میں صہیونی ریاست کے فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کا احوال بیان کیا جا رہا ہے۔
ملازمتوں اور بجٹ میں نسل پرستی
انسانی حقوق کی تنظیم ’ مرکز مساوات برائے اسرائیل میں عرب باشندگان اور ان کے حقوق‘ کی رپورٹ کے مطابق عرب شہریوں کی اسرائیل میں آبادی کا تناسب 21 فی صد ہے مگر فلسطینیوں کو ملازمتوں میں 5 فی صد بھی کوٹہ مہیا نہیں کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان فلسطینیوں میں 37 فی صد گریجویٹ ہیں۔ اسی طرح فلسطینی کالونیوں میں اشیائے صرف کی قیمتوں اور یہودی کالونیوں میں چیزوں کی قیمتوں میں غیرمعمولی فرق ہے۔ فلسطینی آبادیوں میں 63 فی صد اشیا مہنگی فروخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ فلسطینی پرصہیونی ریاست کی طرف سے مہنگائی مسلط کی گئی اور انہیں معاشی بحران سے دوچار کرنے کے لیے 63 فی صد چیزیں مہنگی فروخت کی جاتی ہیں۔
عوامی نسل پرستی
فلسطینی آبادی کے خلاف اسرائیل کی سرکاری نسل پرستی کے ساتھ عوامی نسل پرستی بھی عام ہے۔ اسرائیل میں نجی سطح پر قائم ادارے، کمپنیاں اور افراد بھی فلسطینیوں کے ساتھ نسل پرستانہ رویہ اپناتے ہیں۔ فلسطینیوں کو سر عام گالیاں دی جاتی ہیں۔ انہیں عرب اور فلسطینی ہونے کے طعنے دیے جاتےہیں۔ انہیں گھٹیا اور محروم قوم قرار دیا جاتا ہے اور یہودی صہیونی خود کو فلسطینیوں سے افضل ترین انسان قرار دیتے ہیں۔
فلسطینیوں کو اقلیت باور کرانے کے لیے نسل پرستانہ طرز عمل اپنایا جاتا ہے۔ فلسطینی آبادی کو عموماً شک اور شبہے کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ انہیں خطرے کی علامت سمجھا جاتا ہے اور ہمیشہ انہیں ملک کی پانچویں درجے کے لوگ خیال کیا جاتا ہے۔ یہ تاثر یہودی آباد کاروں، اداروں، حکومت اور افراد میں یکساں ہے۔
قانونی نسل پرستی
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی نسل پرستی کا ایک پہلو قانونی نسل پرستی ہے۔ صہیونی ریاست کینسٹ (پارلیمان) کے ذریعے ایسے قوانین وضع کرتی ہے جس میں صرف یہودیوں کو حقوق دینے کی بات کی جاتی ہے۔ اسرائیل کا کوئی ایسا قانون نہیں جو فلسطینیوں سے امتیازی سلوک کی سفارش نہ کرتا ہو۔ برائے نام اس جمہوری ریاست میں عملاً جمہور کا کوئی حق تو نہیں البتہ صہیونیوں کو ہرطرح کے حقوق حاصل ہیں۔
صہیونی ریاست کے ان نسل پرستانہ قوانین کے اثرات فلسطینیوں کے معاشی، مادی اور سماجی حالات پرمرتب ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں فلسطینیوں میں احساس محرومی میں اضافہ ہوتا ہے۔
فیصلوں میں نسل پرستی
فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ اقدامات میں اسرائیلی ریاست کی پارلیمنٹ قانون سازی کرتی اور عدلیہ اس کی تشریح کرتی ہے اور ان قوانین کے نفاذ کے احکامات جاری کرتی ہے۔ فلسطینیوں کے خلاف سخت ترین فوج داری قوانین وضع کیے گئے ہیں جن کا مقصد فلسطینی عرب آبادی پرعرصہ حیات تنگ کرکے انہیں اپنے علاقوں اور گھر بار کو چھوڑ جانے پر مجبور کرنا ہے۔
تعلیمی نسل پرستی
1948 ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے رہنے والے فلسطینی شہریوں کےخلاف اسرائیل کی نسل پرستی کی ایک شکل تعلیمی نسل پرستی ہے۔ اسکولوں میں تعلیمی نصاب میں فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی صاف جھلکتی دکھائی دیتی ہے۔ تعلیمی نسل پرستی کو مزید موثر بنانے کے لیے بھی قوانین کا سہارا لیا جاتا ہے۔
تعلیمی نصاب میں فلسطینیوں کے خلاف نفرت پھیلائی جاتی ہے۔ صہیونی تحریک کے بڑے مجرموں کو پارسائی کی بلندیوں پر بٹھایا جاتا ہے۔ فلسطین میں یہودی آباد کاری، فلسطینیوں کی جبری ہجرت اور تمام جرائم اور حربوں کی حمایت کی جاتی ہے۔
نسل پرستانہ قوانین
فلسطینیوں کے خلاف اسرائیلی کنیسٹ (پارلیمان) کی نسل پرستانہ قوانین سازی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا کہ فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی کنیسٹ کی طرف سے منظور کردہ ایسے 40 قوانین موجود ہیں جو صہیونی ریاست کو فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستی کے جواز فراہم کرتے ہیں۔
اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ صرف فلسطینیوں کی املاک ہتھیانے کے لیے صہیونی ریاست نے 40 نسل پرستانہ قوانین منظور کررکھے ہیں۔ فلسطینیوں کو ان کے ملک میں موجود ہونے کے باوجود ’غائب‘ لوگوں میں شمار کیا جاتا ہے اور ان کی اراضی اور املاک ہتھیا لی جاتی ہیں۔
اس حوالے سے چند نسل پرستانہ قوانین درج ذیل ہیں۔
قانون شہریت
یہ قانون 28 جولائی 2008 ء کو منظور کیا گیا۔ اس قانون کے تحت اگر کوئی عرب باشندہ اسرائیل کی شہریت کا حامل ہو اور وہ صہیونی ریاست سے وفاداری کی خلاف ورزی کرے تو اس کی شہریت منسوخ کردی جائے گی۔
وفاداری کی خلاف ورزی کی تعریف کافی وسیع ہے۔ اس میں دیگر نکات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ کوئی اسرائیلی نو عرب اور مسلمان ملکوں اور غزہ کی پٹی میں سکونت اختیار نہ کرے۔
بعض اوقات صہیونی ریاست محض شبہے کی بنیاد پر بھی کسی عرب شہری کی اسرائیلی شہریت ختم کرسکتی ہے۔ اسے کسی قسم کے فوج داری ثبوت تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
قانون النکبہ
جہاں تک قانون النکبہ کا تعلق ہے تو اس میں عمومی اداروں کو جو صہیونی ریاست کو یہودی ملک کے طور پر چیلنج کررہے ہیں کے ساتھ کسی قسم کا تعاون ممنوع ہے۔ اگر کوئی تنظیم اسرائیل کو یہودی جمہوری ملک تسلیم نہیں کرتی یا اس کے خلاف سرگرم ہے تو ایسے اداروں کو اندرون اسرائیل کسی قسم کی سرگرمی کی اجازت نہیں۔
اس طرح کی قوانین سازی میں اسرائیل کے انتہا پسند اور دائیں بازو کے یہودی مذہبی سیاسی گروپ پیش پیش ہیں۔
اسرائیلی شہریت کا قانون
اس قانون کے تحت اسرائیلی ریاست کو یہودی ریاست تسلیم نہ کرنے اور ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے فلسطینی عرب کی شہریت منسوخ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔
اس نام نہاد قانون کے تحت اسرائیل کو ’یہودی مذہبی ریاست‘ تسلیم نہ کرنے والے ملک کی سلامتی کے خلاف کام کے مرتکب قرار دے جاتے ہیں اور ان کی شہریت منسوخ کردی جاتی ہے۔
اراضی ہتھیانے کا قانون
فلسطین میں صہیونی ریاست کے غاصبانہ قیام سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی تعداد 5.5 فی صد سے زیادہ نہیں تھی۔ فلسطین میں آباد یہودیوں کے پاس کل اراضی کا صرف 8 فی صد تھا۔ صہیونی ریاست نے اراضی پرغاصبانہ قبضے کے نام نہاد قوانین کی آڑ میں وسیع علاقے پر پھیلے فلسطینی رقبے کو ہتھیا لیا ہے۔ اس وقت صہیونی ریاست کے قبضے میں موجود اراضی کا 93 فی صد غاصبانہ قبضوں کا نتیجہ ہے۔
اذان پر پابندی کا قانون
فلسطینیوں کے خلاف صہیونی ریاست کے نسل پرستانہ قوانین میں ایک قانون مساجد میں اذان پر پابندی کا بھی شامل ہے۔
یہ نام نہاد قانون بھی صہیونی ریاست کے انتہا پسندوں کی دین ہے۔ اس قانون کے تحت اندرون فلسطین کی تمام مساجد میں نماز کے لیے لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے پر پابندی عاید ہے۔ اس کے علاوہ وزیرداخلہ کو اذان پر پابندی کے حوالے سے وسیع اختیارا دیے گئے ہیں۔