سمیع اللہ ملک
قصرسفیدکے فرعون ڈونلڈ ٹرمپ کواپنامنصب سنبھالے ہوئے ایک سال ہونے کوہے مگراپنی زبان کے بیجاغلط اورجارحانہ استعمال کی وجہ سے اندرونی اوربیرونی مسائل اورمشکلات تور ا بورا پہاڑوں کی طرح ناقابل شکست اندازمیں ان کے سامنے کھڑے ہیں۔ 16 سال کی امریکی جنگی حکمت عملی افغان طالبان کے مقابلے میں عملاًبے معنی،بے نتیجہ اورلاحاصل ثابت ہوچکی ہے۔ اس سارے عرصے میں بش کی اندھی ہٹ دھرمی، سیاہ فام اوباماکی کالی آندھی میں چھپی روشن خیال جنگی چالیں بھی بری طرح پٹ چکی ہیں۔ یقیناً ان کے مقابلے میں منہ پھٹ ٹرمپ کسی باغ کی مولی نہیں کہے جاسکتے۔ افغان طالبان نے 16برس کے دوران تمام امریکی بمباری،بارودپاشی اورآتش وآہن کی بارش کے باوجودامریکااوراس کے اتحادی افواج کوناکوں چنے چبوائے ہیں۔ طویل عرصے کی سوچ بچارکابوجھ اٹھانے کے بعد امریکی حکمت کاروں کی جانب سے جونئی پالیسی اگست کے آخری عشرے میں سامنے آئی ہے،اس کابوداپن ایک طرف، افغان طالبان نے امریکی پالیسی کے سامنے آنے کے بعداپنی کارروائیاں ایک مرتبہ پھرتیزکرکے امریکی پالیسی کابرملاجواب میدانوں میں دیناشروع کردیاہے۔
قرضوں کے بوجھ تلے کراہتی اوردبی معیشت کے حامل امریکاکوافغان طالبان نے اپنی بے سروسامانی کے باوصف ایسی زک پہنچائی ہے کہ الاامان الحفیظ۔۔۔خودامریکی دفاعی تجزیہ نگاربھی اپنے سروں کوتھامے انگشت بدنداں ہیں۔امریکاکی بطور واحدسپرطاقت ساکھ ریزہ ریزہ ہوکرگلوبل ویلج کے گلی کوچوں میں پامال چہرہ چھپانے کی ازحدکوشش کررہی ہے۔ امریکی سورج تیزی سے زوال پذیراورڈوبنے کی طرف بڑھ رہاہے ۔ایسے میں افغان طالبان اس گرتی ہوئی دیوارکوایک اوردھکادینے کی کوشش میں ہیں۔اس تناظرمیں دیکھا جائے توماہ اکتوبرکے آخری چندایاّم
امریکاکی نئی پالیسی آنے کے بعدافغان طالبان نے مسلسل امریکیوں اوران کے آلہ کاروں کونشانے پررکھاہواہے۔افغان طالبان کی ان خوفناک حدتک دلیرانہ کارروائیوں اور امریکا کے پھولے ہوئے سانس کی جھلک اس وقت سامنے آئی جب نئی پالیسی کے اندھے گھوڑے پرسوارامریکی وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن خطے کے دورے پرآئے توافغانستان میں 16سال سے اپنے فوجیوں کومروانے اورمعیشت کوجلانے کے باوجودافغان طالبان کے خوف سے نکلنے نہ پائے تھے بلکہ یہی نہیں موصوف افغان دارلحکومت کابل میں بھی قدم نہ رکھ سکے کہ وہ کہیں بھی افغان طالبان کے راکٹ کانشانہ بن سکتے ہیں یاخودکش بمبارحملے میں ان کے چیتھڑے اڑسکتے ہیں۔ان کے خوف کوکم کرنے میں ان کے کاسہ لیس اشرف غنی اورچیف ایگزیکٹوعبداللہ عبداللہ بھی کم کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے۔اس لیے طے یہ پایاکہ امریکی وزیرخارجہ بگرام ائیربیس سے باہرنہیں نکلیں گے اوراشرف غنی اپنے ساتھی عبداللہ عبداللہ کے ساتھ بگرام بیس پرہی ملاقات کے لیے جائیں گے،صرف یہی نہیں یہ ملاقات برسرزمین نہیں بلکہ زیرزمین کھودے گئے ایک گہرے فوجی بنکرمیں ہوگی جس کی حفاظت کے لیے ہزاروں امریکی فوجی اورجنگی ہیلی کاپٹروں کاایک مکمل دستہ باقاعدہ الرٹ ہے اور اسے اپنے سخت حصارمیں لیے ہوئے ہے۔
امریکی وزیرخارجہ ہی کیا،اس سے پہلے ستمبرمیں جب امریکی وزیردفاع جیمس میٹس بھی کابل آئے توطالبان کے راکٹ،طیارے کے استقبال کے لیے داغے گئے تھے۔ اُدھر بھارت بھی اسی کوف کا شکار ہے کہ افغانستان میں جودرگت امریکاکی بن رہی ہے اس سے کہیں زیادہ بھارتی فوج کی بن سکتی ہے اورصرف یہی نہیں اگربھارت نے اپنی فوج افغانستان میں طالبان کے خلاف بھجوانے کی بات کی تواس کاخمیازہ بھارت کوافغان سرزمین پرہی نہیں خودبھارت کے اندرتک اورکافی دورتک بھگتناپڑسکتاہے اورجس کے نتیجے میں خودبھارت کئی حصوں میں تقسیم ہوجائے گا۔یہ امربھی امریکی پریشانی کودوچندکرنے والاہے کہ اشرف غنی کی حکومت امریکی سہارے کے بغیرکابل کوبھی سنبھالنے کی پوزیشن میں نہیںاوربھارتی تربیت یافتہ افغان فوج کسی بھی طرح افغان طالبان کے سامنے ٹھہرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔خودافغان حکومت کے اندربھی اپنی اورامریکی بے بسیوں کاادراک خوب گہراہے، اس لیے اشرف غنی اورعبدللہ عبداللہ خواہ کچھ بھی بولتے رہیںلیکن انہیں یہ مشورے اب خودان کے اپنے ہاں سے بھی ملنے شروع ہوگئے ہیں کہ افغان طالبان کے غیض وغضب سے بچنے کے لیے پاکستان سے مددکی استدعا کے لیے فوری طورپرپاکستان جائیںتاکہ بپھرے ہوئے افغان طالبان کومذاکرات کی میزپرلاکرحکومت کے وابستگان اورافغان فوجیوں کوتحفظ دلایاجاسکے۔
اگلے ماہ امریکی وزیردفاع جیمس میٹس کی بھی پاکستان کے دورے پرآنے کی اطلاع ہے،یقینا اس موقع پرانہیں اپنے فوجیوں کی ڈھارس بندھانے کی غرض سے افغانستان بھی جانا ہوگالیکن ان کادورۂ بھی ریکس ٹلرسن کی طرح بگرام ائیربیس تک ہی محدودرہااورزیرزمین فوجی بنکروں میں چھپ چھپ کرامریکی فوجی کمان سے ملاقاتیں کرتے رہے کہ باہرنکلنے سے طالبان کے راکٹوں کی زدمیںآسکتے ہیںتوامریکی حکام کے ایسے دورے اپنے فوجیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ اشرف غنی حکومت اوراس کے فوجیوں کے مورال کوبھی سخت تباہ وبربادکرنے والے ثابت ہوں گے۔اس سے بات کہنے میں کسی کو حرج نہیں رہے گاکہ زیرزمین تنظیموں کی طرح امریکانے اشرف غنی حکومت کوایک زیرزمین دہشتگردتنظیم کی طرح رکھا ہواہے۔
اس ساری بحث کاایک ہی نتیجہ نکلتاہے کہ بڑبولے فرعون ٹرمپ اوران کی انتظامیہ کونوشتۂ دیوارپڑھتے ہوئے
پاکستانی فوجی سپہ سالارقمرباجوہ ان دنوں خطے کے امن کے لیے شب وروزہمسایہ ممالک کے دورے کررہے ہیں جس سے خطے میں امن کے لیے راہ ہموارکرنے میں غلط فہمیوں کاازالہ اوردوستی کی طرف نئے اقدامات بڑھانے پرعملی اقدامات کاآغازشروع ہوگیاہے۔ انہوں نے پہلے افغانستان اوربعدازاں ایران کے کامیاب دورے کے بعدخطے کے امن کے لیے نئے اقدامات کاآغازکردیاہے لیکن دوسری طرف پاک افغان تعلقات خراب کرنے کے لیے وہاں پرموجودامن کے دشمنوں نے اپنے آقاؤں کے اشارے پراپنی مذموم کارروائیوں میں شدت پیداکردی ہے جس کے لیے جلال آباد میں پاکستان کے قونصل خانے کے ایک سفارتی اہلکارنیئر اقبال کو نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔ننگرہار کے حکام کے مطابق وہ ویزا دفتر میں کام کرتے تھے۔ اس سے اگلے دن ہی کابل میں ایک نجی چینل شمشاد ٹی وی کے دفتر پر دستی بموں کی مددسے حملہ کرکے مسلح حملہ آوروں نے ٹی وی چینل کے عملے کے کچھ اراکین کو ہلاک کر دیا ہے تاہم ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی جا سکی ہے۔ چینل کے دفتر میں 100کے قریب ملازمین موجود ہیں۔ حملہ شروع ہوتے ہی شمشاد ٹی وی کی نشریات روک دی گئی تھیں۔ اب ضرورت اس امرکی ہے کہ امریکی حکام کی دھمکیوں اور افغانستان میں داعش اوربھارت کی موجودگی کے پیش نظرچومکھی دفاعی جنگ کی تیاری کرنی ہوگی جس کے لیے عوام کی بھرپورشرکت کوبھی یقینی بناناضروری ہے۔ ملک میں جاری سیاسی حالات کے مدوجزرنے بے یقینی کی فضا پیداکررکھی ہے جس سے دشمن فائدہ اٹھانے کی ضرورکوشش کرے گا۔