یہ حال دیکھ کر زکریاؑ نے اپنے رب کو پکارا ’’پروردگار! اپنی قدرت سے مجھے نیک اولاد عطا کر تو ہی دعا سننے والا ہے‘‘۔ جواب میں فرشتوں نے آواز دی، جب کہ وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا، کہ ’’اللہ تجھے یحییٰؑ کی خوش خبری دیتا ہے وہ اللہ کی طرف سے ایک فرمان کی تصدیق کرنے و الا بن کر آئے گا اس میں سرداری و بزرگی کی شان ہوگی کمال درجہ کا ضابط ہوگا نبوت سے سرفراز ہوگا اور صالحین میں شمار کیا جائے گا‘‘۔ زکریاؑ نے کہا، ’’پروردگار! بھلا میرے ہاں لڑکا کہاں سے ہوگا، میں تو بوڑھا ہو چکا ہوں اور میری بیوی بانجھ ہے‘‘ جواب ملا، ’’ایسا ہی ہوگا، اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے‘‘۔ (سورۃ آل عمران:38تا40)
سیدنا ابوامامہؓ راوی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: (یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ) ایمان کی سلامتی کی علامت کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب تمہاری نیکی تمہیں بھلی لگے۔ اور تمہاری برائی تمہیں بری لگے تو (سمجھو کہ) تم (پکے) مومن ہو، پھر اس آدمی نے پوچھا، یا رسول اللہ! گناہ (کی علامت) کیا ہے؟ آپؐ نے فرمایا: جب کوئی بات تمہارے دل میں کھٹک اور تردد پیدا کرے (تو سمجھو کہ وہ گناہ ہے) لہٰذا اس کو چھوڑ دو۔‘‘ (مسند احمد بن حنبل،مشکوٰۃ)