دنیا میں عالمی سطح پر اس وقت دہشت گردی کے حوالے سے دو موقف ہیں۔ دہشت گردی کے بلاتفریق اور بلا تمیز مخالفت کے بجائے اچھے اور برے دہشت گرد کی سوچ دنیا کا عمومی چلن ہے۔ عالمی نظام پر چوں کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی چھاپ گہری اور انہی کا سکہ چلتا ہے تو فطری طور پر امریکا کے برے دہشت گرد ہی کو دہشت گرد سمجھا اور مانا جاتا ہے۔ اس وقت دنیا میں یہی بیانیہ اور یہی سوچ غالب ہے۔ امریکا، بھارت اور اسرائیل جس جانب اشارہ کریں دہشت گردی کی ساری ہوائیں اور بدنامیاں اسی جانب رُخ کرتی ہیں۔ اس یک طرفہ فضاء میں متبادل اور مخالف بیانیے کے لیے گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔ یوں متبادل بیانیہ محصور اور قید رہا۔ شاید اب منظر بدل رہا ہے متبادل بیانیہ دنیا میں کسی حد تک قبولیت حاصل کر رہا ہے۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے اقوام متحدہ کے اجلاس میں اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف بلا تفریق اقدامات کرنا ہوں گے۔ ایسے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس عبدالسمیع خان کی سربراہی میں تین رکنی ریویو بورڈ نے سرکاری وکلا کے دلائل سننے کے بعد جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ محمد سعید کی نظر بندی میں توسیع کرنے سے انکار کیا اور یوں حافظ سعید دس ماہ کی نظربندی کے بعد ایک بار آزاد شہری قرار پائے۔ گزشتہ ماہ بھی عدالت نے حکومتی وکلا کی استدعا پر ان کی نظربندی میں توسیع کی تھی۔ حافظ سعید کو دس ماہ قبل تین ساتھیوں سمیت ان کے گھر میں نظربند کیا گیا تھا۔ نظربندی کی میعاد پوری ہونے کے بعد پنجاب حکومت نے انہیں منٹیننس آف پبلک آرڈر کے تحت انہیں دوبارہ نظربند کر ریا تھا۔ اب کچھ عرصے سے ان کی نظربندی میں توسیع کا سلسلہ چل رہا تھا مگر حکومت اس توسیع کے لیے مناسب جواز اور ثبوت پیش نہ کر سکی جس کے بعد عدالت نے مزید توسیع سے انکار کردیا تھا۔ نظر بندی کے خاتمے پر حافظ سعید نے کہا ہے کہ عدالت کے فیصلے سے بھارت کے الزامات جھوٹ ثابت ہوئے ہیں۔ بھارت نے حافظ سعید کی نظر بندی کے خاتمے پر اپنی روایتی تلملاہٹ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ہمسایہ ملکوں میں دہشت گردی کے مرتکب افراد کو سزا دینے میں سنجیدہ نہیں۔
حافظ سعید پاکستان کے ایک قانون پسند شہری ہیں۔ ان کی جماعت ملک میں رفاحی کاموں میں مصروف ہے بلکہ حادثات میں حکومتی اداروں سے بڑھ کر کارکردگی دکھانے کی پہچان رکھتی ہے۔ وادی کشمیر میں لشکر طیبہ کے نام سے جو نوجوان لڑ رہے ہیں حافظ سعید کا دعویٰ ہے کہ وہ ان کے کنٹرول میں نہیں بلکہ الگ نظم کے تحت وادی میں لڑ رہے ہیں
اور ان میں اکثریت اب وادی کے مقامی نوجوانوں کی ہے جو لشکر طیبہ کا بینر استعمال کر رہے ہیں۔ بھارت نے حافظ سعید پر بہت سے الزامات عائد کر رکھے ہیں مگر وہ پاکستان کی عدالتوں کو کسی واقعے میں ان کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرسکا۔ ممبئی حملوں ہی میں حافظ سعید کے ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت پاکستان کی عدالتوں کے سامنے رکھا گیا ہوتا تو حافظ سعید آج کسی جیل میں ہوتے۔ بھارت نے سیاسی بیان بازی کے انداز میں ثبوت فراہم کیے بغیر حافظ سعید کے خلاف کارروائی کی ضد اپنا رکھی۔ عدالتیں شکوک، اخباری بیانات اور کسی دوسرے ملک کو خوش کرنے کے لیے فیصلے صادر نہیں کرتیں بلکہ ان کے سامنے ایک مروجہ طریقہ کار کے مطابق ثبوت رکھانا پڑتے ہیں جن پر عدالت اپنے انداز سے کام کرکے کسی کے مجرم یا معصوم ہونے کا فیصلہ سناتی ہیں۔ بھارت نے سیاسی بیان ہی کو ثبوت جان کر حافظ سعید کو جیل کے پھاٹک تک پہنچانے کی فرمائشیں جاری رکھیں جن کا پورا کرنا کسی ملک کے لیے ممکن نہ تھا۔ ایک ایسے ملک میں جہاں عدالت ایک مطلق العنان آمر کے استخوان میں لرزہ طاری کر سکتی ہے اور ایک منتخب وزیر اعظم کو گھر کی راہ دکھلا سکتی ہے کسی پڑوسی ملک کو خوش کرنے کے لیے بے گناہ شہری کو بلی نہیں چڑھا سکتی۔ حافظ سعید بھارت اور امریکا کے لیے مشکوک اور ملزم ہوں گے مگر وہ اس کا ٹھوس ثبوت پیش کرنے میں اب تک ناکام رہے ہیں۔ صرف جاسوسی نیٹ ورک، این جی اوز اور میڈیا کے ایک طبقے کو ان کے پیچھے لگا کر انہیں مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا۔
یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ گزشتہ دنوں معروف صحافی امتیاز عالم نے دورہ بیجنگ کے دوران سوال وجواب کی ایک نشست میں چین کے نمائندے سے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کے خلاف سلامتی کونسل میں بھارت کی قرارداد کو ویٹو کرنے اور التوا میں ڈالنے کے معاملے کو چین کا دوغلا پن قرار دیا تو چینی نمائندے نے نہایت تحمل سے جواب دیا کہ چین مسعود اظہر کو دہشت گرد نہیں سمجھتا۔ اصل میں امریکا نے ہر اس شخص کو دہشت گرد قرار دیا ہے جس سے بھارت کو تکلیف اور خوف محسوس ہوتا رہا ہے۔ بھارت کی لڑائی میں کود کر امریکا نے کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا ہی کیا ہے۔ اب امریکا کو اس کا احساس ہونے لگا ہے کہ اس نے بھارت کے ہر دشمن کو اپنا دشمن اور ہر دوست کو اپنا دوست بنا کر خطے میں اپنا کردار محدود کیا ہے۔ امریکا کے وزیرخارجہ ریکس ٹلرسن کو بھی پاکستان میں یہ بات باور کرائی گئی ہے کہ وہ حافظ سعید اور حقانی نیٹ ورک کی گردان ایک ساتھ نہ کرے۔ حافظ سعید پاک بھارت کشیدگی کا کردار ہیں اور حقانی نیٹ ورک کا تعلق افغان صورت حال سے ہے۔ دونوں اپنی نوعیت اور حالات کے حوالے مختلف کیس ہیں۔ یوں حافظ سعید کی رہائی کو متبادل دنیا میں آہستہ روی کے ساتھ فروغ پزیر متبادل بیانیے کی رہائی کی جانب ایک قدم کہا جا سکتا ہے۔