’’امریکا یوپی آر ورکنگ گروپ میں پاکستان کو خوش آمدید کہتا ہے اور پا کستان کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ:
1۔ توہین رسالت کے قوانین واپس لے اور احمدی مسلمانوں کے خلاف ان قوانین کے استعمال کو ختم کرے۔
2۔ آزادی رائے کے تحفظ اور فروغ کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی رپورٹرکو دورے کی اجازت دے۔‘‘
یہ مطالبات گزشتہ دنوں جنیوا کے ایک اجلاس میں امریکا کی جانب سے حکومت پاکستان سے کیے گئے۔ اصل مسئلہ پر بات کرنے سے پہلے بہتر ہے کہ مغرب کے اظہار رائے کی آزادی کے نظریہ پر بات کرلی جائے۔ اس آزادی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو کسی بھی معاملے یا مسئلے کے متعلق بغیر کسی پابندی کے اپنی رائے کے آزادانہ اظہار اور وکالت کا پورا حق حاصل ہے۔ آزادی رائے کا یہ استعمال حکمرانوں، سیاست دانوں اور دیگر افراد تک محدود نہیں ہے بلکہ آزادی رائے کے جھنڈے تلے کفر کا کھلم کھلا اعلان بھی کیا جاسکتا ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ کا انکار بھی کیا جاسکتا ہے اور سود، جوا، شراب، زنا، جنسی بے راہ روی، ارتداد جیسی چیزوں کی طرف بھی دعوت دی جا سکتی ہے اور انہیں عام کیا جاسکتا ہے۔ کھلے عام اسلام کے خلاف باتیں کی جاسکتی ہیں، سلمان رشدی جیسا ملعون اور مرتد نبی کریم ؐ اور امہات المومنین کے بارے میں بکواس کرسکتا ہے اور مصور عالی مرتبت ؐ کے کارٹون بناسکتے ہیں اور پورا مغرب ان کے دفاع اور حفاظت کے لیے یکجان اور متحد ہوسکتا ہے۔ اس آزادی کے فروغ اور تحفظ کے لیے امریکا اقوام متحدہ کے نمائندے کو پاکستان بھیجنا چاہتا ہے۔ امریکا کی طرف سے مزید وضاحت یہ سامنے آئی کہ قانون ناموس رسالت کے ختم کرنے کا مطالبہ انسانی حقوق کی حفاظت کے ضمن میں کیا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی دہائی اس ملک کی جانب سے دی جارہی ہے جس نے دوسری جنگ عظیم سے لے کر اب تک 37سے زائد ممالک میں کروڑوں بے گناہ افراد کو قتل کیا ہے۔ صرف کوریا، ویت نام اور افغانستان میں امریکی مظالم اور قتل وغارت سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ سے لے کر ڈیڑھ کروڑ کے درمیان ہے جس میں لاؤس اورکولمبیا کو بھی شامل کرلیجیے۔
مغرب اور مختلف حلقوں کی طرف سے گاہ بگاہ سامنے آنے والے ان مطالبات کی وجہ ہماری حکومتوں کا کمزور ردعمل ہے۔ ناموس رسالت کے معاملے میں کوئی مسلمان مصلحتوں کا شکار ہونے کا تصور بھی نہیں کرسکتا لیکن حکومت پاکستان کا رویہ اس باب میں کس طرح مدافعانہ اور معذرت خواہانہ ہوتا ہے اس کا اندازہ اس امرسے لگایا جاسکتا ہے کہ 17نومبرکو حکومت پاکستان کی طرف سے ’’اقلیتوں کے حقوق‘‘ کے عنوان سے اقوام متحدہ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ: ’’مثال کے طور پر یہ بات قابل ذکر ہے کہ نچلی عدالتوں نے توہین رسالت کے قوانین کے تحت کوئی سزا نہیں سنائی۔ اعلیٰ عدلیہ نے بھی اس عمل کو برقرار رکھا اور کسی کو ان قوانین کے تحت سزا نہیں دی گئی۔‘‘ افسوس ناک بات یہ ہے کہ جنیوا میں امریکا کی طرف سے یہ مطالبات ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف کی موجودگی میں کیے گئے، انہوں نے نہ ان مطالبات کی مزاحمت کی اور نہ ان کی نامعقولیت پر بات کی۔ جواب میں کہا جاسکتا ہے کہ امریکا کے مقابل ہماری کمزوریاں اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتیں کہ ہم ناموس رسالت کے قانون کے بارے میں کوئی سخت موقف اختیار کرسکیں۔ عرض یہ ہے کہ مسلمانوں نے کمزور ترین حالت میں بھی ناموس رسالت کے عقیدے کا تحفظ کیا ہے۔ اس زمانے میں جب خلافت عثمانیہ کو یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا اور حکومت کمزوری کی اس حالت میں تھی کہ اس کی سانسیں بھی برطانیہ اور فرانس کے پاس گروی تھیں، اس وقت فرانس میں ایک ڈراما اسٹیج کیا گیا جسے والٹر نے لکھا تھا اور اس میں عالی مرتبت ؐ کی تو ہین کی گئی تھی۔ خلیفہ عبدالحمید ثانی نے فرانس کے سفیر کو بلوایا۔ اسے بہت بہت دیر انتظار کروانے کے بعد خلیفہ کمرے میں داخل ہوئے۔ اس حال میں کہ انہوں نے جہاد کا مکمل لباس پہن رکھا تھا۔ خلیفہ نے فرانسیسی سفیر کے سامنے تلوار نکال کر رکھ دی اور اسے ترکی سے نکل جانے کا حکم دیا۔ خلیفہ کا رویہ جنگ کا اعلان تھا۔ فرانس نے فوری طور پر ڈراما بند کردیا۔ ڈراما پیش کرنے والے برطانیہ چلے گئے وہاں ڈراما دکھایا جانے لگا۔ خلیفہ نے برطانیہ کو بھی یہی وارننگ دی۔ حکومت برطانیہ کی طرف سے جواب آیا کہ ڈرامے کی ٹکٹیں فروخت کی جاچکی ہیں اور ڈرامے پر پابندی اظہار رائے پر ضرب لگانے کے مترادف ہے۔ اس پر خلیفہ نے برطانیہ کو دوٹوک جواب دیا کہ اگر ڈراما بند نہ کیا گیا تو میں امت مسلمہ کے نام فتوی جاری کردوں گاکہ برطانیہ نے ہمارے رسول محمد مصطفی ؐ کی توہین کی ہے پس جہاد کا اعلان کیا جاتا ہے۔ برطانیہ کو جیسے ہی پیغام پہنچا اسی دن ڈرامے بند کردیا گیا۔
خلیفہ کا یہ رویہ ان کے دینی اخلاص کا مظہر ہے حالاں کہ اس وقت وہ کمزور ترین حالت میں تھے اتنے کہ صرف بیس سال بعد 1924 میں خلافت عثمانیہ کا خا تمہ کردیا گیا۔ انہوں نے اپنی اور ریاست کی کسی کمزوری کو ڈرامے پر رد عمل نہ دینے کا جواز نہیں بنایا اور اس حالت میں بھی فرانس اور برطانیہ کو ان کی بات ماننا پڑی۔ 1913 میں جارج برناڈشا نے رسول کریم ؐ کے خلاف ایک گستاخانہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا تو لارڈ چیمبر لین نے اسے منع کیا اور خلافت کے ردعمل سے ڈرایا۔
تحفظ ناموس رسالت اور تحفظ ختم نبوت کے قوانین ایک عرصے سے ہمارے آئین اور قانون کا جزو ہیں۔ تمام قانون پسند معاشروں کی روایت ہے کہ کسی معاملے پر اگر معاشرے کی غالب ترین اکثریت ایک متفقہ موقف اختیار کرلے اور منتخب پارلیمنٹ اس کی توثیق کرتے ہوئے قانون سازی کرلے تو اسے حتمی اور قومی فیصلہ تصور کیا جاتا ہے۔ کسی شدید مجبوری کے بغیر اسے دوبارہ زیر بحث لانے سے گریز کیا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں صورت حال یہ ہے کہ اسلامی عقائد اور احکام سے متعلق قوانین کو کسی نہ کسی عنوان سے موضوع بحث رکھا جاتا ہے۔ انہیں بار بار چیلنج کیا جاتا ہے تاکہ ردعمل دیتے دیتے لوگوں کے قوی مضمحل ہوجائیں، جذبات سرد پڑ جائیں اور ایک وقت ایسا آئے کہ خاموشی سے ان قوانین کو ختم کردیا جائے۔ جب کہ عملی طور پر عمل درآمد کے حوالے سے یہ قوانین پہلے ہی غیر موثر بنا دیے گئے ہیں۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تبدیلی دفتری غلطی نہیں تھی یہ حکومت کی امریکا اور اپنے مغربی آقاؤں کو خوش کرنے کی ایک مجرمانہ کوشش تھی تا کہ اگلے الیکشن میں امریکا اور مغرب اس کی پشت پر ہو اور اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کی معتوب ہونے کے باوجودوہ کامیابی حاصل کرسکے اور اس دباؤ سے نکل سکے جو اس کی سیاسی بقا کے درپے ہے۔