الیکٹرانک میڈیا کے حوالے سے یہ کہا جارہا ہے کہ چونکہ وہ ذمے دار نہیں اس لیے ان پر پابندی لگادی جاتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ میڈیا خود ہی ذمے دار بنے ورنہ بڑے بڑے قوانین کسی کو ذمے دار نہیں بناسکتے جب تک وہ خود ذمے دار نہ بننا چاہے۔ یہ دیکھا گیا ہے کہ ریٹنگ کے چکر میں حکومت کے خلاف بولنے کے چکر میں ٹی وی چینلز غیر مصدقہ خبروں کو بھی اچھال دیتے ہیں اس حوالے سے پاکستان براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن اور پیمرا کے حکام کو مل بیٹھنا ہوگا۔ پیمرا یا حکومت کے ادارے معاملات کو پیسوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اشتہارات کے بل جاری کرواتے ہیںیا کوٹہ بڑھا دیتے ہیں لیکن کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ریٹنگ کی دوڑ میں قوم کا کتنا نقصان کرایا جارہا ہے اس حوالے سے سی پی این ای نے ایک ضابطہ اخلاق از خود پیش بھی کیا اور اس پر عمل کرانے کی درخواستیں بھی کیں لیکن حکومت میں بیٹھے لوگوں کا کام کچھ اور ہی ہوتا ہے وہاں سے جو کارروائی ہوئی وہ یہ تھی کہ پرنٹ میڈیا کو ہی پابند کرنے کا مسودہ آگے بڑھا دیا گیا۔ حالیہ دھرنے اور اس سے پہلے کے بحرانی حالات میں الیکٹرانک میڈیا نے صرف کشیدگی پھیلانے، خوف و ہراس میں اضافے اور ابہام کو ہوا دینے والا رویہ اختیار کیا جس کا سرا سر نقصان پاکستان اور عوام کو ہوتا ہے۔ اگر عرب ممالک کی طرح خبروں پر پابندی لگادی جائے سب اچھا ہے کا نعرہ لگایا جاتا رہے جرائم کی خبروں کو بھی چھپا دیا جائے تو سب کے پیٹ میں آزادئ صحافت کا مروڑ ہوگا۔ لیکن آزادی کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ملک و ملت کا نقصان کیا جائے اس جانب سنجیدہ توجہ ضروری ہے۔