تشدد تو پہلے دن بھی ہوسکتا تھا

262

بالآخر حکومت نے روایتی حکومتی ہتھکنڈہ یا طریقہ اختیار کیا۔ یعنی طاقت کا استعمال اور طاقت کے استعمال کا نتیجہ وہی ہوا جو ہوتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے دھرنا ختم کرنے کا حکم دیا تھا تشدد کا نہیں اوراس کا راستہ بھی بتادیا تھا کہ دھرنے کے شرکا کی سپلائی لائن بند کی جائے۔ لیکن حکومت یا اس کے اداروں کا حکمت نامی کسی چیز سے کبھی واسطہ ہی نہیں پڑا اسی لیے پہلا غلط کام یہ کیا کہ طاقت استعمال کر ڈالی، دوسرا غلط کام یہ کیا کہ الیکٹرانک میڈیا کو بالکل بند کردیا جس کے نتیجے میں سماجی میڈیا پر ہلاک و زخمی ہونے والوں کی تعداد میں مبالغہ کیا جانے لگا اور مجبوراً شام تک حکومت کو ٹی وی چینلز کی نشریات بحال کرنا پڑی معلوم نہیں یہ کب ہوسکے گا کہ میڈیا کو ذمے دار بنادیا جائے تاکہ اس پر پابندی نہ لگانا پڑے۔ حکومت یہ سب کچھ کیوں کررہی ہے اور لوگ دھرنے پر کیوں بیٹھے ہوے ہیں یہ دو سادا سادا باتیں ہیں۔ دھرنے پر بیٹھے لوگوں کا مطالبہ تھا کہ وزیر قانون کو برطرف کرکے سزا دی جائے اور حکومت کا موقف تھا کہ قانون واپس ہوگیا ہے اب کارروائی کی ضرورت نہیں۔ اس تنازع کے حل کے لیے پہلا قدم دھرنا ختم کرانا تھا اس کا حکم عدالت نے دیا تھا اور یہ کہا تھا کہ دھرنے والوں کی سپلائی بند کی جائے لیکن حکومت نے تشدد کا راستہ اختیار کیا اس کا سبب کیا ہے؟؟ ایک ہی بات سمجھ میں آرہی ہی کہ حکومت اب اس سبب اور ان لوگوں کے ناموں کو صیغۂ راز میں رکھنا چاہتی ہے جو اس سارے کام میں ملوث ہیں۔ اگر وفاقی وزیر قانون اس میں ملوث ہیں تو انہیں بچانے کے لیے ایک ہنگامہ مچا رکھا ہے آخر ایسا کیوں ہورہاہے۔ ظاہری بات ہے اگر یہ تبدیلی زاہد حامد نے کی تھی تو وہ اکیلے یہ کام نہیں کرسکتے کوئی نہ کوئی اس کے ساتھ ہے اور کوئی نہ کوئی اس سارے عمل کے پیچھے بھی ہے۔ کوئی مسلمان یہ تصور نہیں کرسکتاکہ وہ پیسے لے کر بھی ایسا قانون بنائے یا اس میں تعاون کرے۔ اب شبہات یہی رہ جاتے ہیں کہ ایسا کرنے والے خود قادیانی ہیں یا قادیانیوں کے بہی خواہ۔ دوسرے یہ کہ اگر بالفرض قانون سازی کے روایتی طریقوں اور تاریخ کی طرح سمری کہیں بنی، مسودہ کہیں تیار ہوا، وزیر قانون سیکرٹری قانون وغیرہ نے دستخط کیے اور اسمبلی میں پیش کردیا، ارکان اسمبلی انگوٹھا چھاپ یا پارٹی پر فِدا۔ لہًٰذا انہوں نے بھی ایک اشارے پر ہاں کہااور گھر چلے گئے یعنی شروع سے آخر تک نا اہلی، اب حکومت کے پاس دو راستے ہیں اگر نا اہل ہے تو اس کا اعتراف کرے اور نا اہل لوگوں کی جو سزا ہے وہ تجویز اور روبہ عمل لائی جائے۔ لیکن معاملات اتنے سادہ نہیں لگ رہے اور اگر یہ زاہد حامد کی شرارت ہے یا مزید لوگوں کی تو کیا ان سے استعفیٰ لے لیا جائے گا اور پھر کیا استعفیٰ کے بعد معاملات بحال ہوجائیں گے۔؟؟ ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا۔ خرابی صرف اس ترمیم کے ذمے داروں کو بچانے کی کوشش کے نتیجے میں بڑھی ہے۔ ایک خیال یہ ہے کہ خرابی تنہا زاہد حامد کی نہیں ہے بلکہ پوری اسمبلی، سینیٹ اور پارلیمانی کمیٹی ہے اس کا جواب لینا چاہیے۔ جب کہ جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر طارق اﷲ کی تقریر ریکارڈ پر ہے کہ انہوں نے 5 مطالبات پر مشتمل ترمیم قومی اسمبلی میں پیش کردی تھی اور بروقت تمام خرابیوں کی نشاندہی کی تھی لیکن حکمران، ارکان نے ان میں سے کوئی تبدیل نہیں کی۔ پھر جماعت اسلامی نے اسمبلی کے باہر جد وجہد شروع کی اس وقت تک دھرنے کا بھی وجود نہیں تھا پھر ایک دھرنا ہوا اور سات دن جاری رہنے کے بعد ختم ہوگیا کامیابی کا اعلان ہوا کہ قانون واپس لے لیا گیا ہے اور ہم کامیاب ٹھیرے،لیکن اسی روز اس سے ملتے جلتے نام سے نیا دھرنا شروع ہوگیا اس کے بعد سے معاملات حکومت کے قابو سے باہر ہیں عدالتیں احکامات دیتی رہیں اور لوگ پریشانی میں وقت گزارتے رہے لیکن دھرنا ختم نہیں ہوا اور ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو ایسے، جس طرح پہلے روز کی جاسکتی تھی۔ اگر تشدد ہی کرنا تھا تو پہلے ہی کرلیا جاتا۔ دھرنے کے شرکا کے انداز اور گالیوں والی روش پر بات ضرور کی جاسکتی ہے ان کے طریقہ کار کو غلط بھی قرار دیا جاسکتا ہے لیکن حکومت کو کیا پریشانی تھی اگر پہلے ہی دن زاہد حامد اور ایک دو وزرا سے استعفیٰ لے کر معاملات خراب ہونے سے بچالیے جاتے۔ ہاں اس میں قباحت تھی کہ اس قسم کے احتجاجوں میں جن میں ان کو چلانے والے واضح نہ ہوں ان کی سپلائی لائن بحال رکھنے والے بھی سامنے نہ ہوں۔ ان کو کسی حساس مقام پر دھرنے کی اجازت دینے یا وہاں بیٹھے رہنے کا موقع فراہم کرنے والے سامنے نہ ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ دھرنا کچھ لے کر ہی جائے گا۔ اب حکومتی موقف کتنا ہی درست کیوں نہ ہو اگر وہاں یہ کہاجاتا کہ اگرچہ زاہد حامد یا کسی وزیر کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں لیکن چونکہ نبیؐ کی ذات کے حوالے سے ان کا نام لیا جارہاہے اس لیے زاہد حامد استعفیٰ دے رہے ہیں۔ ایک کیا پوری کابینہ بھی نبیؐ کی ذات کی حرمت سے متعلق اپنے ایمان کے اظہار کے لیے مستعفی ہوجاتی تو کیا فرق پڑجاتا۔ ابھی چند ماہ قبل بے ایمانی، حقائق چھپانے اور غلط بیانی دھوکا دہی وغیرہ کے الزام میں ملوث وزیراعظم کی وجہ سے کابینہ کو گھر جانا پڑا تھا، تو کیا فرق پڑ گیا اب بھی مولائے کائنات ختم الرسل نبی آخر الزماں کی ذات سے وابستگی کے لیے کابینہ قربان کردیتے۔ ابھی تو ایسا نہیں نظر آرہا لیکن شایدیہ کام کرنا ہی پڑے۔فی الحال تو بنی اسرائیل کی طرح سوالات پوچھے جارہے ہیں کہ گائے کیسی ہو اس کا رنگ کیسا ہو اس کی خصوصیات کیسی ہوں۔ یہ بھی پتہ چل جائے گا اور اس گائے یا بچھڑے کی قربانی تو دینی پڑے گی۔