حیا انسان کی فطری صفت ہے چوں کہ اسلام ایک فطری دین ہے اس لیے اس میں حیا کی بہت تعلیم دی گئی ہے۔ نبی اکرمؐ نے فرمایا: ’’حیا ایمان کا حصہ ہے‘‘(بخاری)۔ یعنی جس شخص میں ایمان ہو اس میں حیا بھی ہو۔ فرمان نبویؐ ہے: ’’ہر دین کی ایک امتیازی علامت ہوتی ہے اور اسلام کا امتیاز حیا ہے‘‘(ابن ماجہ)۔ مسلمان معاشرے اور کافر معاشرے میں جو سب سے نمایاں فرق ہے حیا کا وہ تصور ہے۔
روز اوّل سے شیطان کا یہی طریقہ رہا ہے کہ وہ انسان کی حیا پر وار کرے۔ اسی لیے دشمنان اسلام بھی اسلام ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے مسلمانوں کی حیا پر وار کرتے ہیں کہ جب مسلمانوں میں سے حیا چلی جائے گی تو ایمان خود ہی رخصت ہوجائے گا۔ان کی یہ سازش کامیاب ہے مسلمان بتدریج حیا اور ایمان سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔
آپؐ کا فرمان مبارک ہے: ’’لوگوں! اللہ سے حیا کرو۔ لوگوں نے کہا ہم تو اللہ سے حیا کرتے ہیں۔ آپؐنے فرمایا: اللہ سے حیا کا حق یہ ہے کہ تم اپنے سر کی اور جو کچھ اس میں ہے اس کی حفاظت کرو‘‘ (ترمذی) یعنی جو کچھ تم سوچتے ہو، جو خیالات تمہیں آتے ہیں، جو منصوبے بناتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔ نیز آپؐنے فرمایا: ’’پیٹ میں جو کچھ ہے اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو‘‘ (ترمذی)۔ یعنی پیٹ میں کیا ڈالتے ہو، کیا کماتے ہو، اپنی اولاد کو کیا کھلاتے ہو اس کے بارے میں اللہ سے حیا کرو۔ ’’جس نے ایسا کیا اس نے درحقیقت اللہ سے حیا کا حق ادا کردیا‘‘ (ترمذی)۔
اسلام صرف بے حیائی سے منع نہیں کرتا بلکہ حیا پھیلانا بھی چاہتا ہے۔ اسی لیے ستر کی بھی حدود دور دور مقرر کیں۔ قرآن میں بھی فرمایا اپنی نظروں کی حفاظت کرو تاکہ معاشرے میں حیا دار ماحول قائم ہو۔ ’’آپؐ تشریف فرما تھے کہ ایک نابینا صحابی تشریف لائے۔ آپؐ نے ام المومنین سے فرمایا اندر جاؤ انہوں نے کہا اے اللہ کے رسولؐ! یہ تو نابینا ہیں۔ آپؐنے فرمایا وہ نابینا ہیں تم تو نہیں ہو‘‘۔(ترمذی)
اسی وجہ سے مرد و عورت کے اختلاط کو بھی اسلام نے ممنوع قرار دیا۔ یہ ہے اسلام میں حیا کا تصور۔ لاکھوں درود و سلام آپؐ پر کہ ان کی بتائی تعلیمات سے معاشرہ حیا دار ہوگا، بہنیں بیٹیاں اپنے بھائیوں اور والدین کے لیے رسوائی کا باعث نہیں بنیں گی۔آپؐکا فرمان ہے کہ: ’’پچھلے انبیاء کی تعلیمات سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو‘‘ یعنی جس میں حیا نہیں اس سے کسی بھی برائی اور گناہ کی توقع کی جاسکتی ہے۔
بنت عطاء ، کراچی