بینا حسین خالدی ایڈووکیٹ، صادق آباد
پاکستان سے ہر سال لاکھوں لوگ عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں جس پاسپورٹ ویزے اور شناختی کارڈ کی بنیاد پر انہیں سعودی عرب میں داخلے کی اجازت ملتی ہے وہ تمام دستاویزات بہت سے مراحل سے گزر کر قابل قبول قرار پاتی ہیں اور ان کی تصدیق کی جاتی ہے۔ امیگریشن کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے کاغذات کی بار بار جانچ پڑتال کی جاتی ہے، کسی بھی پاکستانی کی شہریت جانچنے کے یہ طریقے عرصہ دراز سے نافذ ہیں۔ جن میں کسی قسم کے اضافے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اگر سعودی حکومت کی طرف سے ایسی کسی ضرورت کا مطالبہ کیا گیا تھا تو بائیو میٹرک تصدیق کا یہ سسٹم نہ سعودی ایمبیسی سے منسلک ہے اور نہ ہی سعودی وزارت خارجہ سے اس کا کوئی لنک ہے بلکہ یہ بائیو میٹرک ٹیکنالوجی اور اس سے منسلک کمپیوٹرز کا لنک انڈیا کے مین ڈیٹا سرور سے منسلک ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر انڈیا کو لاکھوں پاکستانیوں کے متعلق معلومات فراہم کرنے کی کیا ضرورت پیش آگئی ہے؟ جب کہ سعودی حکومت نے بھی انڈین حکومت یا انڈین کمپنیوں سے اس بارے میں کوئی خدمات نہیں مانگی ہیں کہ پاکستانی عمرہ زائرین کا شناختی ڈیٹا انڈیا کے ماہرین جمع کرکے انہیں دیں۔ نیز اگر سعودی حکومت نے عمرہ زائرین کے لیے ایسی کسی شرط کو لازمی طور پر لاگو کیا ہے تو تمام دیگر ممالک کے عمرہ زائرین کے لیے بھی یہی شرط لازم ہونی چاہیے تھی دیگر اسلامی ممالک کے عمرہ زائرین پر تو اس طرح کی کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ہے۔
پاکستانی عمرہ زائرین کی بائیو میٹرک تصدیق کرنے کے لیے ’’اعتماد‘‘ کے نام سے بڑے شہروں کراچی، لاہور، اسلام آباد، کوئٹہ اور پشاور ہی میں دفاتر قائم کیے گئے ہیں۔ عمرہ زائرین لاکھوں کی تعداد میں بائیو میٹرک تصدیق کے عمل سے گزارے جائیں گے اور اس تصدیقی عمل کی فیس 500 روپے فی پاسپورٹ رکھی گئی ہے۔ اس طرح یہ کمپنیاں کروڑوں روپے کمائیں گی اور حکومت پاکستان کو تو لاکھوں لوگوں کے سفری اخراجات میں سے بھی فائدہ پہنچے گا اور اربوں روپے حکومتی خزانے میں جمع ہوں گے۔ حکومت نے عوام کو لوٹنے کے نئے نئے دھندے اختیار کر رکھے ہیں۔ کبھی این ٹی ایس ٹیسٹ کے نام پر کروڑوں کمائے جاتے ہیں اور تعلیم یافتہ لوگوں کو بیوقوف بنایا جاتا ہے تو کبھی شناختی کارڈ کے ساتھ ڈومیسائل کی شرط لگا کر غریب عوام کا خون پسینہ نچوڑا جاتا ہے بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ یوٹیلیٹی بلز، ٹیکسوں اور مہنگائی کے ذریعے خون پسینہ تو پہلے ہی نچوڑا جاچکا ہے، اب تو ہڈیوں کے اندر سے گودا کھینچنے کی حکومتی تدابیر کی جارہی ہیں اور بطور قانون یہ تدابیر لاگو کی جارہی ہیں۔
ائر پورٹس پر بائیو میٹرک تصدیق کا عمل باآسانی کیا جاسکتا ہے اس کے لیے علیحدہ فیس اور علیحدہ کمپنیاں بنانے کی ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہٰذا پاکستانی عمرہ زائرین کے لیے بائیو میٹرک تصدیق کی شرط ختم کی جائے۔