ملک الطاف حسین
گزشتہ دنوں اسلام آباد میں ایک عالمی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی جنرل زبیر محمود حیات نے خبردار کیا کہ ’’بھارت آگ سے نہ کھیلے ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے‘‘۔ بھارت کی جانب سے رواں برس کنٹرول لائن پر 1200 مرتبہ سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیاں ہوچکی ہیں جن کے نتیجے میں 1000 شہری اور 300 فوجی جوان شہید ہوئے جب کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا ظلم بڑھ رہا ہے، ہر 20 کشمیریوں پر ایک بھارتی فوجی تعینات ہے، 94 ہزار کشمیری شہید کیے جاچکے ہیں، ہزاروں کی بینائی جاچکی ہے، مسئلہ کشمیر حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں دیرپا امن ممکن نہیں۔ پاکستان مسئلہ کشمیر اور افغان تنازع کا حل چاہتا ہے اور ہم تمام امور پر یکساں پیش رفت چاہتے ہیں، نئی دہلی پاکستان میں دہشت گردی کرا رہا ہے، ’’را‘‘ نے سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لیے 50 کروڑ ڈالر مختص کردیے ہیں، بھارت سے خوشگوار تعلقات کا راستہ کشمیر سے ہو کر گزرتا ہے، اس میں کوئی بائی پاس نہیں، خون اور پانی ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے، ایشیا میں تزویراتی مسائل تنازعات کو بڑھاوا دے رہے ہیں، پاکستان افغان عدم استحکام کی بھاری قیمت چکا رہا ہے، پاکستان تمام حالات کے تناظر میں کم از کم جوہری صلاحیت رکھے گا، بھارت میزائل ڈیفنس ٹیکنالوجی، جوہری ہتھیاروں اور روایتی ہتھیاروں میں تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، عالمی سطح پر طاقت کا حصول جنوبی ایشیا میں عدم استحکام کا باعث ہے۔
دوسری جانب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ’’منگلا اسٹرائیک کور‘‘ کے دورے کے دوران آفیسرز اور جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سرحدوں پر موجود خطرات کو نظر انداز نہیں کرسکتے، خطرات کے پیش نظر اعلیٰ تربیتی معیار اور آپریشنل تیاریاں ناگزیر ہیں، قوم اور ملکی اداروں کو مربوط انداز میں کام کرنا ہوگا، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کا وجود ختم نہیں کرسکتی، طویل سفر کے بعد چیلنجوں پر قابو پاچکے۔ جب کہ اسی روز (15نومبر2017) کے اخبارات میں وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا بیان بھی شائع ہوا جس میں آپ نے کہا کہ امریکا بھارت کو جدید اسلحہ فروخت کرکے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بگاڑ رہا ہے، امریکی اقدامات کے نتیجے میں خطے کی سلامتی پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت اور امریکا کے مابین جدید ٹیکنالوجی کی خریداری کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں اسلحہ کی دوڑ شروع ہوجائے گی جو یہاں کے بسنے والے اربوں لوگوں کی معاشی اور سماجی زندگی کو متاثر کرے گی، غربت اور دیگر مسائل میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
’’بھارت‘‘ پاکستان کا پڑوسی ملک ہے، پڑوسی اچھے ہوں یا برے بدلے نہیں جاسکتے، تاہم امن، ترقی اور خوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ ممکن حد تک پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر اور خوشگوار رکھے جائیں، بھارت کے ایک رہنما آنجانی جگ جیون رام نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ پڑوسی کتنا بھی کمزور ہو اُس کا خیال رکھا جائے کیوں کہ اگر وہ زیادہ کچھ بھی نہ کرے صرف ٹین بجاتا رہے تو بھی ساری رات سونے نہیں دے گا۔ یاد رہے کہ یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب پاکستان ایٹمی پاور نہیں تھا مگر اس دور کے حوالے سے بھی یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ 1965ء میں پاکستان کی بہادر افواج نے محض 15 دن کے اندر بھارت کی فوج کے دانت توڑ کر اُسے بھاگنے پر مجبور کردیا تھا جہاں تک ’’سقوط ڈھاکا‘‘ کی بات ہے تو یہ پاکستان کی کوئی فوجی شکست نہیں تھی بلکہ یہ روس، امریکا اور بھارت کی گہری سازش اور جارحیت تھی کہ جس کے آلہ کار کے طور پر پاکستان کے تین رہنما (جنرل یحییٰ، شیخ مجیب اور ذوالفقار علی بھٹو) دانستہ یا نادانستہ طور پر استعمال ہوئے۔ بہرحال وقت گزر گیا اور گزر رہا ہے لیکن بھارت اگر ’’سقوط ڈھاکا‘‘ کا تجزیہ کرے تو اُسے پاکستان توڑنے والوں کا انجام بھی معلوم ہوجائے گا، ہم یہاں بھٹو، مجیب اور اندرا گاندھی کی بات نہیں کررہے بلکہ امریکا، روس اور بھارت کی بات کررہے ہیں جس سوویت یونین نے مشرقی پاکستان توڑنے کے لیے فوجی مشیر، اسلحہ، کشتیاں اور پائلٹ بھیجے تھے اُس کو ’’جہاد افغانستان‘‘ کے ذریعہ ہمیشہ کے لیے تحلیل کردیاگیا جب کہ دوسرا سازش کرنے والا ملک جس کا ساتواں بحری بیڑہ وعدے کے باوجود جان بوجھ کر مشرقی پاکستان کے ساحلوں کے قریب نہ پہنچا کہ جب تک سقوط ڈھاکا مکمل ہوجائے وہ بھی گزشتہ 16 برس سے افغانستان میں ایڑھیاں رگڑ رہا ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنی تاریخ کی طویل ترین جنگ لڑ رہا ہے مگر فتح کا دور دور تک کوئی امکان نہیں، امریکی جنرل پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں اور امریکی سفارت کار پاکستانیوں کے پاؤں پڑتے ہیں کہ ہماری مدد کی جائے۔ امریکا کا تیسرا حملہ آور صدر بھی افغان مجاہدین (طالبان) کے سامنے شرمندہ اور بال نوچ رہا ہے۔
ہم اپنے مستقل پڑوسی ’’بھارت‘‘ کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے جغرافیے اور تاریخ پر غور کرے، بھارت ہندوؤں کا ہندوستان ضرور ہے تاہم اس کے اندر کروڑوں مسلمان اور دیگر مذاہب کو ماننے والے لاکھوں غیر ہندو بھی رہائش پزیر ہیں۔ بھارت کے سامنے سمندر پشت پر کوہ ہمالیہ اور چین ہیں جب کہ دائیں اور بائیں پاکستان اور بنگلا دیش ہیں، پاکستان میں بھارت نواز نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ چلی گئی، اِسی طرح سے بنگلا دیش میں بھارت کی کٹھ پتلی حسینہ واجد کی حکومت بھی ہمیشہ نہیں رہے گی۔ بنگلا دیش میں اب بھی ’’مشرقی پاکستان‘‘ کروٹ لے رہا ہے جب کہ مقبوضہ کشمیر سے اُٹھنے والی چیخیں اہل پاکستان کو سونے نہیں دیتیں، 45 برس بعد بنگلا دیش میں مطیع الرحمن نظامی شہید اور اُن کے دیگر 6 ساتھیوں کی پھانسیوں کا براہ راست بھارت ذمے دار اس طرح سے ہے کہ جیسے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی سیکورٹی فورسز مسلمانوں کا قتل عام کررہی ہیں، جنرل زبیر محمود حیات نے بالکل درست کہا کہ پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے۔ بھارت آگ سے کھیل رہا ہے کسی بھی وقت ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے۔
ہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے اردگرد جمع انتہا پسند اور دہشت گرد ہندوؤں کو یہ بھی یاد دلانا چاہتے ہیں کہ بھارت کے سینے پر مسجدیں، قلعے اور مقبرے مسلمانوں کو متوجہ کررہے ہیں کہ بھارت کے اندر ایک اور ’’پاکستان‘‘ کی ضرورت ہے جب کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے ممبئی میں واقع گھر کے دروازے پر لگا تالا اور بابری مسجد کے شہید مینار بھی آواز دے رہے ہیں کہ ’’تم کب آؤ گے‘‘۔ محمود غزنوی کا گُرز اور ٹیپو سلطان شہید کی تلوار بھی ہماری تاریخ کا قیمتی ورثہ ہیں جنہیں ہم کبھی بھلا نہیں سکتے۔ مقبوضہ کشمیر جو پاکستان کی شہہ رگ اور تقسیم ہند کا نامکمل ایجنڈا ہے، سر کریک اور سیاہ چن جو پاکستان کا حصہ ہیں، پاکستان کی جانب بہنے والے دریا جن کے پانیوں پر پاکستان کا حق ہے ان تمام کا باعزت اور پُرامن حل ہی جنوبی ایشیا کے امن کی ضمانت ہے، پاکستان کی عسکری اور سیاسی قیادت جنگ نہیں چاہتی تاہم جنگ کے لیے تیار ضرور ہے۔ جنرل زبیر محمود حیات اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھارت کو جو پیغام دیا ہے وہ بڑا واضح ہے، پاکستان ہرگز جارحانہ یا توسیع پسندانہ عزائم نہیں رکھتا تاہم وہ اپنی سرحدوں پر کسی بھی طرح کی مہم جوئی یا جارحیت کو برداشت بھی نہیں کرے گا۔
ہم آخر میں اپنی عسکری اور سیاسی قیادت سے یہ کہنا چاہیں گے کہ سی پیک سمیت پاکستان کی داخلی سلامتی کے خلاف بھارت جو سازشیں کررہا ہے اس کی پشت پر افغانستان میں موجود امریکی جنرل اور اس کی فوج ہے لہٰذا بہت ضروری ہے کہ پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں اور ناپاک ارادوں کا براہ راست ذمے دار امریکا کو قرار دیا جائے کیوں کہ جب تک ہم دشمن کے دوست کو اپنا دشمن ڈکلیئر نہیں کریں گے تب تک ہماری ’’دفاعی پالیسی‘‘ غیر موثر رہے گی۔
اللہ ربّ العزت سے دُعا ہے کہ وہ پاکستان کی حفاظت فرمائے۔ آمین ثم آمین