اسلام نے عورت کو بلند مقام دینے کے ساتھ حیا و وقار کا پیکر بھی کہا ہے، یعنی اسے اپنی عصمت کی حفاظت کے ساتھ شرم و حیا اور پردے کے تقاضے پورے کرنے کا بھی واضح حکم دیا ہے اور یہ ہمارے نبیؐ اور ازواج مطہرات، صحابیات کی بھی سیرت ہے کہ وہ بہت حیا والی اور خود کو چھپا کر رکھنے والی تھیں جب کہ ہماری آج کی نوجوان لڑکیاں اس اہمیت سے ناآشنا ہیں اور آزادی کا غلط استعمال کرتے ہوئے آدم کی ہوس اور تذلیل کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ مخلوط اور غیر مخلوط ماحول میں بے پردگی اور اپنی خوبصورتی کی نامحرم کے سامنے بے جا نمائش ہے۔ مقصد زندگی اور حصول تعلیم کو فراموش کرتے ہوئے بنت حوا نے اپنی عزت آنچل سر پر لٹکانے کے بجائے معاشرے کی آلودہ فضا میں لہرانا شروع کردیا ہے۔ جو بے حیائی کا آغاز کرتے ہوئے انتہا کر دیتی ہے۔ مودبانہ گزارش ہے کہ اسلامی تعلیمات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اسلامی جمہوریت کا پاس رکھتے ہوئے اپنی تہذیب و روایات کو بچاتے ہوئے ہمارے ملک میں حجاب اور باوقار لباس کا قانون نافذ کیا جائے۔ ملکی سطح، ہر ادارے، ہر کالج اور ہر یونیورسٹی میں ہر لڑکی اور ہر کام کرنے والی عورت کو حجاب کی اہمیت سے روشناس کروایا جائے اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ ہر طرف پروقار اور حیا کی فضا ہو اور کسی بنت حوا کو ابن آدم کی ہوس کا خوف نہ ہو۔ وہ خود کو محفوظ سمجھے اور اپنی شناخت حجاب اپناتے ہوئے مسلم معاشرے کی عکاسی کرے۔
غازیہ امین، جامعہ سرگودھا ویمن کیمپس فیصل آباد