اتوار کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے درمیان ملاقات میں فیض آباد آپریشن کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا گیا اور پھر رات گئے دینی جماعتوں کے رہنماؤں اور حکومت کے درمیان مذاکرات ہوئے اور سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ واقف حال کا دعویٰ ہے کہ فوج کو معاملات حل کرنے کی درخواست وزیراعظم خاقان عباسی نے کی تھی۔ ختم نبوت کے مسئلے پر اسلام آباد سمیت پورے ملک میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی تکلیف دہ تھا۔ پریشانی احتجاج کرنے والوں کو بھی ہوئی اور ان سرکاری اہل کاروں کو بھی ہوئی جو انہیں عدالت کے حکم پر ہٹاکر راستے بحال کرنا چاہ رہے تھے۔ لیکن سب سے زیادہ نقصان عوام کا ہوا جن کے روز مرہ کے امور کم ازکم تین دن تک متاثر رہے۔ انتخابی اصلاحات کے نامزدگی فارم میں ختم نبوت کے ذکر میں تبدیلی پر احتجاج فطری تھا کوئی بھی مسلمان اور پاکستانی شہری آئین کے مطابق موجود اس تبدیلی پر خاموش نہیں رہ سکتا تھا۔
لیکن اس میں تبدیلی کی تجویز پر غور ہی کیوں کیا گیا اور غور کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے ارکان جن کا تعلق صرف مسلم لیگ نواز سے ہی نہیں بلکہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سے بھی تھا انہوں ںے کیوں اس وقت شدید احتجاج نہیں کیا؟ دینی جماعتوں کا یہ ایسا احتجاج تھا جس میں ایک رہنما سب کے سامنے باآواز بلند مغلظات بکتے ہوئے بھی نظر آئے۔ اس احتجاج کے ساتھ ہی حکومت کے دن گنے جانے کی باتیں اور افواہیں عام ہونے لگیں۔
جنرل قمر باجوہ اور وزیراعظم خاقان عباسی کی ملاقات کے حوالے جنرل باجوہ کے اس موقف کے بعد کہ: ’’احتجاجیوں کے خلاف طاقت کا استعمال نہیں کیا جائے گا‘‘۔ ان افواہوں نے مزید زور پکڑا۔ ان اطلاعات میں اضافے کی وجہ یہ بھی بنی کہ دینی جماعتوں نے پیر سے تین دن کے لیے یوم سوگ کا اعلان کردیا تھا۔ لیکن پیر کا سورج طلوع ہوا تو سب کو علم ہوا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے اور دھرنا ختم کردیا گیا۔ دھرنا ختم کیا ہوا حکومت کے خاتمے کی توقعات باندھے سیاسی، غیر سیاسی ’خاص و عام افراد کی‘ امیدوں پر پانی پھر گیا۔
یہ سب سوچنے لگے کہ اگر یہ مسئلہ مزاکرات ہی سے اس قدر آسانی سے حل کیا جانا تھا تو ملک بھر کے نظام کو کیوں غیر یقینی کی صورت حال سے دوچار کیا گیا؟ اگر مذاکرات فوج ہی سے کرانے تھے تو اس قدر تاخیر کیوں کی گئی؟
اس دھرنے نے قوم کی امیدوں کو ’’دھرلیا‘‘۔ قوم اب موجودہ حکومت سے بیزار آچکی ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ملک کا اصل طاقتور عنصر اب بھی جمہوری نظام کو کسی بھی طرح چلانا چاہتا ہے تاکہ ان پر جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کا الزام نہ آئے۔
دھرنا احتجاج کا جو نتیجہ نکلا اسے ایک جملے میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ: ’’جمہور کو کچھ نہیں ملا، مگر فوج اپنا کردار ادا کرنے میں کامیاب ہوگئی‘‘۔
میرا خیال ہے کہ دھرنا سیاست سے پیدا ہونے والی افواہوں اور چہ مگوئیوں سے صرف عوام کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوتی ہیں باقی سب سست ہو جاتا ہے۔ بے چارے عوام ہیں کہ انہیں سمجھ ہی میں نہیں آرہا کہ یہ سب کیا ڈراما ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت صدیقی کے ریمارکس پر نظر ڈالیں تو کچھ اور ہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ جج کوئی بھی غلط نہیں ہوسکتے کیوں کہ ان سے غلطی ہو ہی نہیں سکتی ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے مقدمے کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ’’فوج اپنی حدود میں رہے‘‘۔
’’جس فوجی افسر کو سیاست کا شوق ہے وہ ریٹائر ہوکر اپنا شوق پورا کرے‘‘۔
’’مجھے پتا ہے اس کے بعد میں لاپتا کردیا جاؤں گا‘‘۔
’’جس شخص کا کورٹ مارشل ہونا چاہیے تھا اس کو ثالث کیوں بنایا‘‘۔
’’مجھے معلوم ہے کہ میری جان کو بھی خطرہ ہے‘‘۔
’’آئین پاکستان کے تحت کسی آرمی افسر کا ثالثی بننا کیسا ہے؟‘‘۔
’’کیا قمر جاوید باجوہ آئین سے باہر ہیں؟‘‘
’’وہ ثالث کیسے بن سکتے ہیں؟‘‘
’’یہ تو لگ رہا ہے کہ ان کے کہنے پر ہوا ریاست کے ساتھ کب تک ایسے چلتا رہے گا؟‘‘
’’فوجی کیوں خواہ مخواہ ہیرو بنے پھرتے ہیں‘‘۔
’’آرمی چیف کون ہوتے ہیں ثالث بننے والے؟‘‘
جسٹس شوکت کے ریمارکس کو من وعن لکھ دیا گیا ہے۔ کیوں کہ مجھے توہین عدالت کے ساتھ ’’ان کی وردی‘‘ کی بھی توہین میں جکڑے جانے کا بھی ڈر لگا رہتا ہے۔ ویسے بھی اپنے اداروں کا احترام تو کرنا ہی چاہیے ناں؟
البتہ میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے ’’قابل احترام‘‘ سے یہ پوچھنے کی جسارت کررہا ہوں کہ کیا آپ لوگ وہ مقدمہ بھی درج نہیں کرائیں گے جس کا ذکر دھرنا ختم کرنے سے صرف بارہ گھنٹے پہلے کیا گیا تھا جس کے تحت آپ لوگوں کو نواز شریف، شہباز شریف، اعتزازاحسن اور دیگر تمام کے خلاف ایف آئی آر کٹوانی تھی؟