مذہبی اور غیر مذہبی ووٹ کی بحث

444

گزشتہ ہفتے جسارت کے سنڈے میگزین میں تنویر اللہ خان نے عمل اور مجلس عمل کے عنوان سے لکھے گئے کالم میں مذہبی اور غیر مذہبی ووٹ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے ’’پاکستان میں ہونے والے اب تک کے انتخابات میں 2002ء کے انتخاب میں مذہبی جماعتوں نے سب سے زیادہ ووٹ لیے تھے جن کی تعداد 3181483 تھی جو ڈالے گئے ووٹ کا 18.54 فی صد بنتی ہے۔ یہ انتخاب ایم ایم اے کے جھنڈے تلے لڑا گیا تھا۔ اگر ہم ایم ایم اے کو ملنے والے ووٹ کو مذہبی کہیں تو اس تعریف کے مطابق ان انتخابات میں بھی 83.46 فی صد ووٹ غیر مذہبی تھے۔ آگے چل کر تنویر صاحب لکھتے ہیں ’’دینی جماعتوں کا اتحاد بظاہر تو مذہبی ووٹ کو یکجا کرنے کی کوشش نظر آتی ہے لیکن اس سے بھی مذہبی اور غیر مذہبی کی ایک تقسیم تو آپ سے آپ پیدا ہو جاتی ہے کیوں کہ اس طرح 84 فی صد ووٹ غیر مذہبی بن کر مخالف کیمپ میں چلا جاتا ہے۔ معاشرے میں مذہبی ووٹ کا یہ تناسب کسی تبدیلی کا سبب نہیں بن سکتا، لہٰذا ایک آدمی ایک ووٹ کے اس نظام میں الیکشن میں حصہ لینے والی جماعتوں کو مذہبی اور غیر مذہبی وغیرہ کی تقسیم میں نہیں پڑنا چاہیے۔ انتخاب میں حصہ لینے والی جماعتوں کے لیے ووٹ صرف ووٹ ہے، وہ نہ مذہبی ہے اور نہ غیر مذہبی ہے۔ ووٹ صرف حکومت بنانے اور اس کے نتیجے میں کسی تبدیلی کا ذریعہ ہے۔
پاکستانی معاشرے کی ساخت اور سیاسی حرکیات اتنی سادہ نہیں جتنی اوپر بیان کی گئی ہے۔ پاکستانی آبادی کا 40 فی صد شہریوں میں اور باقی 60 فی صد دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں رہتا ہے اس 60 فی صد دیہاتی آبادی میں انتخابی سرگرمیوں اور انتخابی نتائج کا دارومدار بااثر اور طاقتور شخصیات (electables) پر ہے چاہے یہ شخصیات ایک پارٹی میں ہوں یا دوسری میں یا تیسری میں، علاقے کا ووٹ انہی کو ملے گا اسی لیے تبدیلی کا نعرہ لگانے والی جماعت نے بھی انہی شخصیات کا سہارا لیا، چناں چہ اصل میں الیکشن تو 40 فی صد آبادی میں ہوتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ اس 40 فی صد آبادی کا ایک نمایاں حصہ جو دین دار ہے، نمازی ہے، شکل اور حلیے سے نیک مسلمان معلوم ہوتا ہے وہ دینی جماعتوں سے دور ہے وہ الیکشن میں حصہ لینے اور سیاسی سرگرمیوں کو دین کا حصہ نہیں سمجھتا اور اس کا ووٹ غیر دینی جماعتوں کو جاتا ہے، کراچی میں ان دین دار اور نمازی لوگوں نے لسانی دہشت گرد پارٹی کو ووٹ دیے، رائے ونڈ میں ان کے اجتماع میں 20 لاکھ سے زائد افراد ہوتے ہیں اور اس جماعت میں انتہائی پڑھے لکھے، ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر کے ماہرین، سرکاری ملازمین اور بیوروکریسی اور فوج کے ریٹائرڈ افسران شامل ہیں۔ مزید یہ کہ گزشتہ دس پندرہ برسوں میں بڑے بڑے نامی گرامی کرکٹر، گلوکار اور دوسرے نامور افراد اپنا پرانا پیشہ اور مصروفیات چھوڑ کر اس جماعت میں شامل ہوئے اور اس میں ہمارے پالیسی میکرز اکابرین کے لیے سوچنے کی بات ہے کہ ہم پورے دین پر عمل کررہے ہیں دنیا میں جہاں مسلمانوں کو تکلیف پہنچتی ہے ہم اس پر آواز بلند کرتے ہیں لیکن پاکستانی معاشرہ دین کی علامت دوسری جماعتوں کو سمجھتا ہے۔
تیسری اہم بات جو سمجھنے کی ہے وہ یہ کہ انتخابی عمل بڑی حد تک ایک کاروباری معاملہ ہے یعنی ووٹر اور سیاسی جماعت کے درمیان کچھ لو اور کچھ دو (Give and take) والا سلسلہ ہے۔ جس طرح دکان پر ہم قیمت ادا کرتے ہیں اور دکاندار ہمیں اس کے بدلے ہماری پسندیدہ شے ہمارے حوالے کردیتا ہے۔ اس طرح انتخابی عمل میں بھی ایک سیاسی جماعت اپنے ووٹرز سے یہ وعدہ کرتی ہے یا اپنا منشور پیش کرتی ہے کہ آپ کے علاقے آپ کے صوبے اور ملک کے جو اہم ترین مسائل ہیں وہ حل کیے جائیں گے۔ مزید یہ کہ فلاں فلاں آسانیاں آپ کو فراہم کی جائیں گی، وہ چاہے پانی اور بجلی کی فراہمی کی شکل میں ہوں یا پارک اور سڑک کی تعمیر کی شکل میں ہوں اور ووٹر جس پارٹی کے وعدوں اور منشور سے مطمئن ہوں اس کو اپنا ووٹ دیتے ہیں، اس معاملے میں ووٹر ہر پارٹی کی سابقہ کارکردگی اور ملک میں اس پارٹی کی مجموعی پالیسیوں، سرگرمیوں اور نظریات و خیالات کو بھی سامنے رکھتے ہیں۔ ان عوامل کے علاوہ ایک بات یہ بھی ہے کہ ووٹ کے حصول میں کسی جماعت کی پرانی وابستگی بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتی ہے۔ بہت سے ووٹر مندرجہ بالا عوامل کو نظر انداز کرتے ہوئے اس بات پر ڈٹے رہتے ہیں کہ بھئی ہمارا ووٹ فلاں پارٹی کا ہے لیکن جیسے جیسے تعلیم، معلومات اور میڈیا کا فروغ ہورہا ہے ایسے ووٹرز کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے۔
اس سیاسی اور سماجی پس منظر میں جب کہ ہم اپنا ایک شاندار، مضبوط اور باکردار ماضی رکھتے ہیں، سماجی خدمات میں نمایاں مقام لوگ تسلیم کرتے ہیں، رشوت، بدعنوانی اور مفاد پرستی کے ماحول میں ہمارے پارلیمنٹرین ایک صاف اور کرپشن سے پاک کردار رکھتے ہیں، دوسری متنازع اور غیر شفاف جماعتوں کے ساتھ کھڑے ہونے سے ہماری شناخت متاثر ہوتی ہے، ساکھ مجروح ہوتی ہے، تنظیم کمزور ہوتی ہے اور ووٹر ہمیں بھی اُن جیسا سمجھتا ہے ان کی برائیاں ہمارے کھاتے میں آجاتی ہیں جب کہ اچھائیاں اجاگر نہیں ہوپاتیں۔ چناں چہ دینی اور تنظیمی دائرے میں جس طرح ہمارا ایک منفرد مقام ہے سیاسی حکمت عملی میں بھی مروجہ رویوں سے ہٹ کر اور ہار اور جیت سے بلند ہو کر ایک مضبوط اور نمایاں اور منفرد حکمت عملی وضع کرنی چاہیے۔