فلسطینیوں کی دائمی محکومیت کا ’’حتمی سودا‘‘؟ 

470

ڈونلڈ ٹرمپ نے مسند صدارت سنبھالنے کے فوراً بعد بڑے طمطراق سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تنازع کا ایک ایسا حتمی حل پیش کریں گے جواب تک امریکا کا کوئی صدر پیش نہیں کر سکا ہے۔ اس دعویٰ کو ایک سال گزرگیا لیکن موعودہ حل سامنے نہیں آیا۔ پچھلے کچھ دنوں سے امریکی میڈیا میں یہ خبریں آنی شروع ہوئی ہیں کہ ٹرمپ کے یہودی داماد جارڈ کوشنر اور اسرائیل میں امریکا کے سفیر فریڈ مین مشرق وسطیٰ کا امن منصوبہ تیار کر رہے ہیں۔ ابھی تک اس منصوبہ کی زیادہ تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں لیکن مختلف ذرائع سے اس مجوزہ منصوبہ کے بارے میں جو خبریں آئی ہیں ان میں کہا جا رہا ہے کہ اس منصوبہ کے تحت امریکا بالآخر فلسطین کی مملکت کو تسلیم کر لے گا لیکن اسرائیلی ٹیلی وژن کے سیاسی پروگرام ’’حادثات‘‘ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فلسطینی مملکت کو تسلیم کرنے کے سوا فلسطینیوں کو اور کچھ نہیں ملے گا، حتی کہ مشرقی یروشلم کو فلسطینیوں کا قومی دارالحکومت بھی تسلیم نہیں کیا جائے گا جب کہ اقوام متحدہ کی قرارداد کے تحت یروشلم تینوں مذاہب کا شہر تسلیم کیا گیا ہے۔ اسرائیلی پروگرام ’’حادثات‘‘ کے مطابق ارض فلسطین پر تعمیر شدہ یہودی بستیوں میں سے کسی بستی کو ختم نہیں کیا جائے گا اور ان بستیوں میں آباد کسی یہودی کو بے دخل نہیں کیا جائے گا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ مجوزہ منصوبہ کے تحت امریکا اسرائیل کی سیکورٹی کی خاطر ان یہودی بستیوں کے وجود کو تسلیم کر ے گا اور اسرائیل کے دفاع کی خاطر دریائے اردن کے کنارے تک اسرائیل کی فوج تعینات کی جائے گی۔ یہی نہیں اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کا اصرار ہے کہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیل کو سیکورٹی کنٹرول حاصل ہونا چاہیے۔ اگر نیتن یاہو کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا تو فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی فوج تعینات کی جائے گی۔ اس صورت میں فلسطین کی مملکت کی خودمختاری اور حاکمیت بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔
یہ بات بے حد اہم ہے کہ گزشتہ ہفتہ اسرائیل نے فلسطین کی سر زمین پر مزید 176یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے ان میں سے بیش تر بستیاں مشرقی یروشلم کے علاقے میں تعمیر کی جائیں گی۔ ان بستیوں کی باقاعدہ اسرائیل میں شمولیت کے بارے میں اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسہ میں قانون کی منظوری کا امکان ہے۔
کوشنر اور فریڈمین کے تیار کیے جانے والے اس منصویہ کے تحت اسرائیل کو عرب ممالک سے تجارت کی آزادی ہوگی اور اسرائیلی ائر لائنز کو خلیج کی فضا پر پروازوں کی اجازت ہوگی، خاص طور پر سعودی عرب، مصر، متحدہ عرب امارات اور اردن تک پروازوں کی آزادی ہوگی۔
عام خیال ہے کہ کسی بھی فلسطینی کے لیے ان خطوط پر مجوزہ منصوبہ قابلِ قبول نہیں ہوگا لیکن کہا جاتا ہے کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کو یقین ہے کہ وہ عربوں کو اس منصوبہ کو تسلیم کرنے پر آمادہ کر لیں گے۔ کیوں کہ ان کی رائے میں عرب اپنا پیدائشی حق چند ارب ڈالر کے عوض فروخت کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں کریں گے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق، ٹرمپ منصوبے کے تحت سنی عرب مملکتوں کی فلسطینیوں کی امداد کے لیے کئی سو ملین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی جائے گی تاکہ فلسطین کی انتظامیہ کے صدر محمود عباس کو اس منصوبے کو تسلیم کرنے پر آمادہ کیا جاسکے۔ ٹرمپ منصوبہ کی اصل بنیاد اس مفروضے پر ہے کہ فلسطینیوں کا مسئلہ اپنی مملکت کے قیام کا سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ اقتصادی مسئلہ ہے۔
عرب میڈیا میں یہ خبریں ہیں کہ صدر ٹرمپ اور ان کے داماد کے شدید دباؤ کے تحت سعودی عرب کی تائید حاصل کر لی گئی ہے۔ پچھلے مہینے ٹرمپ کے داماد اور اسرائیل میں امریکی سفیر، اس منصوبے کے بارے میں بات چیت کے لیے ریاض کے دورے کر چکے ہیں اور سعودی ولی عہد اس منصوبہ کے حق میں ہیں۔ یہ منصوبہ سعودی عرب کے اس منصوبہ سے یکسر مختلف ہے جو 2002میں پیش کیا گیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت، سعودی عرب نے پیشکش کی تھی کہ اگر اسرائیل 1967کی سرحد پر واپس چلا جائے تو سعودی عرب اس سے اپنے تعلقات معمول کے مطابق استوار کر لے گا اور فلسطینی سربراہ محمود عباس کو یہ منصوبہ تسلیم کرنے پر آمادہ کرلیا جائے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ سعودی شاہ نے پچھلے ماہ فلسطینی سربراہ محمود عباس کو ریاض طلب کیا تھا اور ان سے یہ منصوبہ تسلیم کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے محمود عباس نے ہے کہ سعودی فرماں روا پر صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ کوئی فلسطینی ٹرمپ کا منصوبہ منظور نہیں کرے گا۔ اس کے جواب میں محمود عباس سے یہ کہا گیا تھا کہ انہیں یہ منصوبہ تسلیم کرنا پڑے گا ورنہ ان کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور بالآخر اپنے عہدے سے استعفا دینے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
بتایا جاتا ہے کہ محمود عباس کے حریف فلسطینی رہنما محمد دحلان کو جو دبئی میں مقیم ہیں ریاض بلا لیا گیا تھا اور محمود عباس پر یہ واضح کر دیا گیا تھا کہ اگر انہوں نے ٹرمپ کا منصوبہ تسلیم نہیں کیا تو ان کی جگہ کوئی دوسرا فلسطینی رہنما یہ منصوبہ منظور کر لے گا۔
اسرائیلی میڈیا کے خبروں کے مطابق محمود عباس سے کہا تھا کہ عرب ممالک کے لیے ایران کا خطرہ نہایت سنگین ہے اور اس سلسلہ میں امریکا اور اسرائیل کی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ ٹرمپ منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیاں امن کے قیام کے بغیر سعودی عرب، ایران کے خطرہ کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور اسرائیل کی حمایت حاصل نہیں کر سکتا۔ ایران کے ’’خطرے‘‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان اتفاق رائے اور اشتراکِ عمل کا پیمان اب خفیہ نہیں رہا ہے بلکہ عرب اور اسرائیل کے حکمران کھلم کھلا اشتراکِ عمل کا اعلان کررہے ہیں۔ اس سے پہلے کبھی یہ سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا کہ فلسطینیوں کے مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اسرائیل سے کوئی عرب ملک یوں گٹھ جوڑ کرے گا۔
بتایا جاتا ہے کہ محمود عباس نے سعودی ولی عہد سے کہا تھا کہ اگر اسرائیل 1967 کی سرحدوں پر جانے کے لیے راضی ہو جائے اور فلسطینیوں کی اپنے وطن واپسی کے لیے تیار ہو تو اس صورت میں فلسطینی یہ منصوبہ منظور کر سکتے ہیں۔ لیکن ٹرمپ کے منصوبہ کے سلسلہ میں جو نقشہ سامنے آیا ہے اس میں مشرقی اور مغربی یروشلم میں تعمیر کردہ یہودی بستیاں اور ان کے ساتھ غرب اردن کے کنارے کی یہودی بستیاں بھی اسرائیل میں شامل کی گئی ہیں، جن سے دست بردار ہونے کے لیے اسرائیل کسی صورت میں تیار نہیں ہوگا۔ اس دوران سعودی عرب میں لبنان کے وزیر اعظم سعد حریری کے استعفے پر ہنگامہ کے شور و غل میں محمود عباس سے سعودی عرب کے مطالبہ کا معاملہ دب گیا۔
ٹرمپ کے منصوبے کے تحت یروشلم کی حتمی حیثیت اور فلسطینیوں کی وطن واپسی کے معاملات کے بارے میں مذاکرات ابتدائی سمجھوتے کے بعد ہوں گے۔ فلسطینیوں کے لیے یہ بات قابل قبول نہیں کیوں کہ انہیں اس بارے میں تلخ تجربہ ہے کہ اسرائیلی عبوری سمجھوتے کے بعد حتمی معاہدے سے انحراف کی راہ اختیار کرتے ہیں۔ فلسطینیوں کو اس پر بھی اعتراض ہے کہ منصوبے کے تحت امن کے حتمی مذاکرات سعودی عرب کی قیادت میں ہوں گے۔
گو ابھی مشرق وسطیٰ میں امن کے بارے میں ٹرمپ کے منصوبے کی تفصیلات کا اعلان نہیں ہوا ہے لیکن اس منصوبہ کے جو اہم نکات افشا ہوئے ہیں ان سے یہ صاف ہے کہ ایران سے دشمنی کی خاطر فلسطینیوں کا مفاد قربان کیا جارہا ہے اور فلسطینیوں کی دائمی محکومیت کا ’’حتمی سودا‘‘ ہورہا ہے۔