کراچی (رپورٹ: خالد مخدومی) سندھ کے صوبائی بجٹ سے 14.4 فیصدحصہ پانے کے باوجود سندھ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے کراچی سمیت صوبے بھر میں جرائم پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں، صوبائی حکومت نے امن وامان کے قیام کے لیے رواں مالی سال 80 ارب روپے مختص کیے ہیں ، 2016ء کے مقابلے میں رواں برس جرائم کی شرح میں 12 فیصد اضافہ دیکھنے میںآیا ،شہری حلقوں نے بھاری اخراجات کے باوجود جرائم کی بڑھتی ہو ئی شرح پر تشویش کااظہار کیا ہے ،کراچی سمیت سندھ کے چھوٹے بڑے شہروں کے مکین سڑکوں پر راج کرنے والے جرائم پیشہ افراد کے رحم وکرم ہیں۔ کراچی میں فائرنگ، اسٹریٹ کرائم اور پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا، جرائم پیشہ عناصر گھروں کی دہلیز تک پہنچ کر لوٹ مار کرنے لگے۔ 11 ماہ کے دورا ن صرف کراچی میں 350 سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ سی پی ایل سی رپورٹ کے مطابق 11 ماہ میں 27 ہزار 219 شہریوں کو موبائل فون سے محروم کردیا گیا، 23 ہزار 553 شہری اپنی موٹرسائیکلوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سی پی ایل سی نے رپورٹ میں کہا ہے کہ 1294 شہری اپنی قیمتی کاروں سے محروم کردیے گئے، اغوا برائے تاوان کے 10 واقعات رپورٹ کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق کراچی کے 58 شہریوں نے بھتہ خوری کی شکایات درج کروائیں، ڈکیتوں نے بھی کراچی کے 8 بینکوں پرہاتھ صاف کیے۔ پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ رواں سال قتل اور زخمی ہونے کے زیادہ تر واقعات ڈکیتی مزاحمت پر پیش آئے۔ واضح رہے کہ سی پی ایل سی کے اعداد و شمار صرف ان واقعات پرمشتمل ہوتے ہیں جن کا مقدمہ باقاعدہ تھانوں میں درج ہوتا ہے اس میں سڑکوں پر لوٹ مار ،ڈکیتی رہزنی اور موبائل چھیننے کی ان وارادتوں کا تذکرہ نہیں ہوتا جن کاشکار ہونے والے تھانے کا رخ ہی نہیں کرتے اور ایسے افراد کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 80 فیصد ہے ۔ جو اافراد تھانے جاتے ہیں ان میں سے بھی 12 فیصد صرف ایک درخواست کے ذریعے واقعے کا روزنامچہ میں اندارج کرواتے ہیں، قانونی اور شہر ی حلقوں کے مطابق سی پی ایل سی کو جرائم کے اعداد و شمار جاری کرتے ہوئے کم ازکم ان وارادتوں کو بھی شامل کرنا چاہیے جن کا روزنامچوں میں اندراج کروایاجائے اورجرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کو اعداد اشمار کے گورکھ دھندے کے ذریعے چھپانے کی کوشش نہ کی جائے۔واضح رہے کہ سندھ کے صوبائی بجٹ میں صوبے میں امن و امان کی صورتحال کو قابو میں رکھنے کے لیے 79 ارب 93کروڑ روپے مختص ہیں جو کل بجٹ کا 14.4 فیصد ہے جو کہ تعلیم کے بعد کسی شعبے کے لیے مختص کی گئی دوسری بڑی رقم ہے۔ بجٹ میں سندھ پولیس کے لیے 74 ارب روپے ،رینجرز کے لیے 2 ارب 93 کروڑ اور فیڈرل کانسٹیبلری کے لیے ایک ارب مخصوص ہیں،واضح رہے رینجرزکو نیشنل ایکشن پلان کے تحت بھی اخراجات کے لیے رقم دی جاتی ہے ،شہری حلقوں نے وسائل کی بھرپور فراہمی کے باوجود امن وامان کی تیزی سے بگڑتی ہوئی صورتحال پرتشویش کا اظہار کیا ہے۔