کراچی (رپورٹ : محمد انور ) سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ اور انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی کے عملے کی عدم توجہ کے باعث شہر کے نئی کراچی ، نارتھ کراچی ، سہراب گوٹھ ، گرین ٹاؤن کے علاقے عظیم پورہ ، ملیر ندی کورنگی روڈ ، ابراہیم حیدری ،لانڈھی شرافی گوٹھ اور کیٹل کالونی کے علاقوں میں کوڑا اور جانوروں کی آلائشوں کو جلائے جانے کے باعث اطراف کا ماحول بری طرح متاثر ہورہا ہے جس سے لاکھوں افراد کی صحت خراب ہونے لگی ہے۔لوگ خطرناک امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ مذکورہ علاقوں کے جائزے کے مطابق گرین ٹاؤن کے قدیم قبرستان کے ساتھ آباد ی کے بیچ غیر قانونی ڈمپنگ پوائنٹ بنا دیا گیا جس کی وجہ سے لوگوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں ، اہل علاقہ کا کہنا ہے کہ اس کچرے میں متعلقہ ٹھیکیدار کے کارکن آگ لگادیا کرتے ہیں تاکہ کچرا جل جائے اور پہلے سے لیے گئے ٹھیکے کے مطابق پیسے جیب میں آسکیں۔ اسی طرح کا سلسلہ مذکورہ مختلف علاقوں میں چل رہا ہے۔ جس سے فضائی ماحول بری طرح خراب ہورہا ہے جبکہ ماحولیات کی ذمے دار سندھ انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں حالانکہ اس ایجنسی کا بنیادی کام لوگوں کے لیے ماحول کو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنا ہے۔ اس ادارے کی طرح اربوں روپے کا سالانہ بجٹ خرچ کرنے والے ادارے سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے قیام کے مقاصد بھی حاصل نہیں ہورہے بلکہ یہ ادارہ بھی ای پی اے کی طرح صوبے کے خزانے پر ایک مالی بوجھ بن چکا ہے۔اس بورڈ کے قیام کا اصل مقصد کراچی سمیت صوبے بھر کے مختلف شہروں سے کچرا اٹھانا اور اسے عالمی معیاری اصولوں کے مطابق ٹھکانے لگانا اور اس کچرے سے آمدنی حاصل کرنے کے لیے اقدامات کرنا تھا۔لیکن قیام کو تین سال گزر جانے اور اس عرصے میں دس ارب روپے سے زائد اخراجات کے باوجود اس ادارے نے اپنی ذمے داریوں کو صرف کراچی کے دو اضلاع تک محدود رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی اپنے قوانین تک مکمل نہیں کرسکی۔ ان دونوں اداروں کے قیام کے فائدے تاحال سامنے نہیں آرہے ہیں۔ سندھ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ کے ایم ڈی کی حیثیت سے سندھ یونیفایڈ گریٹ سروس کے ایک ڈاکٹر کو جو مبینہ طور پر سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کا کسی قسم کا تجربہ رکھتے ہیں اور نہ ایڈمنسٹریشن کے اصولوں سے انہیں کوئی واقفیت ہے پھر بھی انہیں اس نئے ادارے کی ذمے داریاں دے دی گئی ہیں۔ مذکورہ ایم ڈی اب تک کراچی کے اسپتالوں سے جنریٹ ہونے والے کچرے کا بھی اندازہ نہیں لگاسکے۔ جس سے ان کی فرائض سے دلچسپی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یادرہے کہ شہر میں روزانہ 13 ہزار ٹن کچرا پیدا ہوتا ہے لیکن صرف 7 ہزار ٹن یومیہ ٹھکانے لگایا جاتا ہے۔