انتخابی اصلاحات کی آڑ میں ختم نبوت سے متعلق شقوں کے خاتمے سے شروع ہونے والا بحران آخر کار خونیں تصادم کو جنم دینے کے بعد ایک سہ فریقی معاہدے پر انجام کو پہنچ گیا۔ ختم نبوت کی شق سے چھیڑ چھاڑ کا ملبہ وزیر قانون زاہد حامد پر گرا اور وہ عہدے سے استعفا دے کر دھرنے کے خاتمے کے لیے مضبوط جواز فراہم کر گئے۔ دھرنے والوں کا مطالبہ ہی اس مشق کے ایک محرک کا تعین اور اسے علامتی سزا دینے سے متعلق تھا۔ حکومت اس محرک کے تعین اور تلاش سے گریزاں تھی اور اسی لیے راجا ظفرالحق کی سربراہی میں قائم کمیٹی کی رپورٹ کو منظر عام پر لانے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا رہا۔ جس سے معاملات اُلجھتے چلے گئے۔ عدالت دھرنا ختم کرانے پر مُصر تھی حکومت طاقت کے استعمال سے گریزاں اور دھرنے والے استعفا لیے بغیر جانے سے انکاری۔ فوج نے اپنے ترجمان کے ذریعے بہت پہلے اپنا وزن ختم نبوت کے پلڑے میں ڈال دیا تھا۔
بائیس دن کے دھرنے کے بعد حکومت اور مظاہرین کے درمیان ایک ایسا معاہدہ ہوا جس میں حکومت کمزور وکٹ اور دفاعی پوزیشن میں دکھائی دیتی ہے جب کہ اس معاہدے کا تیسرا فریق فوج خود ہے اور ایک میجر جنرل فیض حمید نے بطور ضامن معاہدے پر دستخط ثبت کیے ہیں۔ ایک بحران ٹل گیا اور ملک ایک نئی قسم کی شدت پسندی کی لپیٹ میں آنے سے بچ گیا۔ اس بحران کا پہلا اور آخری سبق ہے کہ پاکستان میں کوئی ’’کمال اتاترک‘‘ نہیں۔ اس ملک میں کسی کو کمال اتاترک بننے کی کوشش سے گریز ہی کرنا چاہیے۔ ملک کی شناخت کو بیرونی دباؤ، قرضوں کی معافی اور شرائط میں نرمی، اقتدار کو دوام بخشنے جیسی وقتی باتوں کی خاطر بدلنے کی کوششیں معاشرے کو ایک خوفناک تقسیم کی طرف لے جانے کا باعث بنتی رہیں گی۔ پاکستان نے اپنے لیے شناخت کا موجودہ سفر بتدریج حالات وواقعات کی بنیاد پر طے کیا ہے۔ اس سفر کا سنگِ میل بانیان پاکستان نے خود رکھا ہے۔
یہ شہید ملت لیاقت علی خان کی وزرات عظمیٰ کا دور تھا جب ملک کے آئین ساز ادارے نے قرارداد مقاصد منظور کی تھی جسے بعد میں دستور پاکستان کا باضابطہ حصہ بنایا گیا تھا۔ پاکستان کی اس شناخت کو واضح کرنے کے لیے مختلف ادوار میں قانون سازی ہوتی رہی ہے۔ یہ قانون سازی کسی جمہوری دور میں ہوئی ہو یا آمریت میں مگر اسے بہرحال ملک کے آئینی اداروں نے مروجہ جمہوری طریق�ۂ کار کے مطابق تحفظ دیا ہے۔ تجربات نے پاکستان کو بھارت سے الگ، ممتاز اور ممیز کرنے کے لیے اس کی اسلامی شناخت کو لازمی ثابت کیا ہے۔ مغرب نے پاکستان کی اس شناخت کو بدلنے کی ہر دور میں کوشش کی مگر پاکستانی معاشرے کو ہر کوشش کے جواب میں آمادۂ مزاحمت پایا۔ جنرل پرویز مشرف نے برسر اقتدار آنے کے چند دن بعد اپنی ذاتی، ریاست پاکستان اور فوج کی مجموعی شناخت کو بدلنے کے لیے ٹائم میگزین کو پہلا انٹرویو دیتے ہوئے جدید ترکی کے بانی مصطفی کمال پاشا کو اپنا آئیڈیل قرار دیا۔ یہ بات کہتے ہوئے ان کے بازوؤں پر کتے کے دو پلے بھی تھے۔ اس انٹرویو اور اس تصویر سے جنرل مشرف نے مغربی دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ مغرب ان سے خوف نہ کھائے کیوں کہ وہ اصل میں ایک لبرل انسان ہیں جن سے پاکستان کی شناخت بدلنے کا کام بھی لیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا لبرل طبقہ ملک کی شناخت بدلنے کی اسی آس میں جمہوریت، آئین اور جلاوطن نوازشریف اور بے نظیر بھٹو کو بھول بھال کر جنرل مشرف کے گرد طواف کرتا رہا مگر حالات نے پاکستان کا اتاترک بننے کے شوقین مشرف کو کہاں سے کہاں پہنچایا یہ بات محتاج بیان نہیں۔
ملک کے معروف صحافی امتیاز عالم آج جس جمہوریت کی خاطر ہلکان ہو رہے ہیں سافما کے اجلاسوں میں اہتمام کے ساتھ جنرل مشرف کو مہمان خصوصی بناتے اور ان کی شان میں رطب للسان دکھائی دیتے رہے۔ انہوں نے کبھی یہ موقف اختیار نہیں کیا کہ پاکستان کے غیر جمہوری اور غیر منتخب حکمران پرویز مشرف کے ساتھ ایک اسٹیج پر نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لیے کہ پرویز مشرف کی آئینی اور جمہوری حیثیت سے زیادہ اہم بات ان کی روشن خیال اعتدال پسندی تھی۔ جنرل مشرف کے دور کے اختتام پر ہی جنرل اشفاق کیانی نے کہا کہ تھا کہ اسلام ہی پاکستان کی شناخت رہے گا۔ وقتاً۔ فوقتاً پاکستان کا ’’اتاترک‘‘ بننے کے شوق میں حکمران بیرونی دباؤ میں اقدامات اُٹھاتے ہیں۔ اب یہ بات طے ہوجانی چاہیے کہ پاکستان کی موجودہ شناخت مسلمہ ہے اور اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان کے حکمران اور لبرل طبقات کو بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کر لینا چاہیے۔ وقت نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان کی طے شدہ شناخت کو تبدیل کرنے کی کوششیں پنڈورہ باکس کھولنے کا باعث بنتی ہیں جس سے ریاست کے وجود کے لیے بھی کئی خطرات کھڑے ہوتے ہیں۔