دھرنا

372

بچے کی پیدائش کے بعد پہلا استفسار یہ ہوتا ہے کہ بچہ کس پر گیا ہے۔ ننہیال پر یا ددھیال پر۔ ناک ماں پر ہے یا باپ پر۔ کچھ ایسے ہی سوال ہمارے یہاں دھرنوں پر اٹھائے جاتے ہیں کہ دھرنا کس پرگیا ہے۔ عمران خان کے دھرنے کے وقت یہ سوال زیادہ شدت سے زیر بحث تھا۔ بار بار امپائر کی انگلی موضوع بحث بن جاتی تھی لیکن معاملہ ابہام کا شکار ہی رہتا تھا۔ فیض آباد دھرنے کے اختتام پر اس سوال کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے صاف کردیا اور اس خوبی سے کہ دھرنے سے زیادہ دھرنا نوازوں کا نام لوگوں کی گفتگو کا موضوع ہے۔ اب تک فوج کے حوالے سے مارشل لا موضوع بحث رہتا تھا کہ ملک مارشل لا کا متحمل نہیں ہوسکتا اب دھرنے بھی فوج کے کھاتے میں چلے گئے ہیں۔ مارشل لا ساحل پر بیٹھ کر تیراکی کرنے کا نام ہے تو دھرنا ساحل پر قبضے کا۔ وطن عزیز میں دھرنا بہت مہلک روایت بنتا جارہا ہے۔ دھرنوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہا تو پھر ملک کے دن گن رکھیے۔ اگر آپ کے پاس دوچار پانچ دس ہزار لوگ ہیں تو آپ حکومت اور اس کی رٹ کو مرغا بنا سکتے ہیں۔ اٹھک بیٹھک کراسکتے ہیں۔ شہروں کو یرغمال بنا سکتے ہیں اور ریاست کو لطیفہ۔
فیض آباد دھرنے کے آغاز اور انجام کو اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ ہے بدنیتی۔ حکومت سابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی سے متعلق قانون میں ترمیم لانا چاہتی تھی۔ سیدھے سبھاؤ ترمیم کرلیتی۔ کیا ضرورت تھی ختم نبوت سے متعلق شق اور قادیانیوں کے مسئلے سے چھیڑ چھاڑ کرنے کی۔ تحریک ختم نبوت پاکستان کے قائم ہونے کے محض تین سال بعد 1950سے ایک انتہائی حساس معاملہ رہا ہے۔ تب سے کوئی حکومت اس مسئلے کی تاب نہیں لاسکی۔ پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹونے آئین میں ترمیم کرکے جس مسئلے کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا تھا مسلم لیگ ن نے اس مسئلے کو پھر زندہ کردیا۔ محض امریکا اور مغرب کی نظر میں سرخرو ہونے کے لیے۔ صدر ٹرمپ نے جب سے امریکا میں اقتدار سنبھالا ہے وہ پاکستان پر انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے زور دیتے آرہے ہیں۔ نواز شریف اور ان کے ڈمی وزیراعظم نے امریکا کو مطمئن کرنے کے لیے الیکشن ترمیمی بل میں اس حساس ایشو کو چھیڑ دیا۔ ایسی غلطی، اتنا بڑا بلنڈر تب ہی ممکن ہے جب انسان خدا کی گرفت میں ہو۔ پھر اس کے دفاع میں جھوٹ اور ڈھٹائی کو مسلسل وتیرہ بنا لیا گیا۔ پہلے کہا کلریکل غلطی ہے۔ کلرک بیچارے ویسے ہی اپنی نوکری بچانے کے لیے ہانپتے کانپتے رہتے ہیں۔ ان سے ایسی کسی غلطی کا صدور تو کجا خیال بھی محا ل ہے۔ پھر یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس قانون کو تمام جماعتوں کے نمائندوں نے منظور کیا تھا۔ مولانا فضل الرحمن اور امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کی طرف سے فوراً تردید آگئی۔ اس مرحلے پر حکومت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ترمیم کے سابقہ الفاظ بحال کردیے۔ لیکن آبیل مجھے مار کی جس مشق کا حکومت نے آغاز کیا تھا وہ اس کے درپے ہوگئی۔ عوام اس غلطی کے ذمے دار کا تعین اور اس کے خلاف کارروائی چاہتے تھے۔ یوں بڑی فنکاری اور چابک دستی سے کی گئی واردات حکومت کے گلے پڑگئی۔ سیاست دان قوم کا نبض شناس ہوتا ہے۔ حکومت کو عوام کے جذبات کا ادراک ہونا چاہیے تھا لیکن لگتا ہے میاں نواز شریف اس حس سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اور وہ طوفان جو ایک استعفے سے ٹل سکتا تھا انہوں نے اسے اپنی انا کا مسئلہ بنا لیا حتی کہ برادر خورد شہباز شریف کی طرف سے جب ذمے دار کے استعفے کا مطالبہ سامنے آیا تو ان کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات پھیل گئے۔
اس دوران اسلام آباد ہائی کورٹ اور عدالت عظمیٰ نے دھرنے کا ازخود نوٹس لے لیا اور حکومت پر زور دیا کہ جس طرح بھی ممکن ہو دھرنا ختم کیا جائے۔ جتنی طاقت کی ضرورت ہو استعما ل کی جائے۔ حکومت دھرنے کا پر امن حل چاہتی تھی اور اس بات سے آگا ہ تھی کہ طاقت کے استعمال سے پورا ملک شورش کی لپیٹ میں آجائے گا۔ حکومت نے عدلیہ کو خفیہ اداروں کی رپورٹ پیش کی کہ دھرنے کے شرکاء میں سے کچھ کے پاس ہتھیار ہیں۔ قیمتی جانوں کا زیاں ہوسکتا ہے۔ لیکن عدالت نے ان رپورٹوں کو بھی مسترد کردیا۔ عدلیہ کے احکامات برسر زمین حقائق کے خلاف تھے۔ حکومت نے عدلیہ کی اس غلطی کا فائدہ اٹھایا اور آپریشن کی ذمے داری عدلیہ پر ڈال دی۔
اب آئیے اس سوال پر کہ دھرنے کا سہولت کار کون تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ریمارکس کے بعد جس وسیع پیمانے پر فوج کے کردار پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں وہ اپنی جگہ ایک المیہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کی اہل سیاست کی غلطیوں اور انا سے معاملات جب بھی ناقابل حل حد تک بگڑے فوج نے آگے بڑھ کر قوم کو اس مشکل سے نکالا چاہے وہ عدلیہ کی بحالی کا معاملہ ہو یا کوئی اور۔ سیاسی حکومتوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کے حوالے سے بارہا فوج کا نام آتا رہا ہے لیکن فیض آباد معاہدے میں جس طرح آرمی چیف کا نام آیا ہے وہ ایک فاش غلطی ہے۔ جسٹس شوکت عزیز صدیقی کے ان ریمارکس کی وسیع پیمانے پر تائید سامنے آئی ہے کہ: ’’فوج کون ہوتی ہے ثالث کا کردار ادا کرنے والی۔ کیا فوج اقوام متحدہ ہے کہ ثالثی کا کردار ادا کرے۔ پاکستان کے قانون میں ایک میجر جنرل کو ثالث بننے کا اختیار کہاں دیا گیا ہے۔ کہاں گیا ان کا رد الفساد۔ یہاں ان کو فساد نظر نہیں آیا۔ یہ تو اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے پیچھے یہی تھے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ فوج کے سوا کوئی ادارہ اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے سوا کوئی اور شخصیت نہیں تھی اہل دھرنا جس کے قابو میں آتے۔ دھرنے پر فوری قابو نہ پایا جاتا تو پورا ملک شعلوں کی لپیٹ میں آجاتا لیکن معاہدے میں جنرل قمر جاوید باجوہ کا نام نہیں آنا چاہیے تھا۔ ان کے بجائے وزیر اعظم یا وزیر داخلہ کا نام ہونا چاہیے تھا۔ پھر اہل دھرنا کے جس طرح تمام مطالبات تسلیم کیے گئے وہ ریاست کی بیچارگی اور سرنڈر کرنے کے مترادف ہے۔ یہ معاہدہ نہیں ریاست کی خود کشی کی کوشش ہے۔ اسلام آباد کا دھرنا ختم ہوا تو اب لاہور کا دھرنا اہل لاہور کی زندگی کے معمولات کے درپے ہے۔ فیض آباد دھرنے کے شرکاء پر مقدمے قائم کرنے کے بجائے ان میں نوٹ تقسیم کیے گئے۔ لاہور دھرنے کے شرکاء کے لیے نوٹوں کے ساتھ ساتھ پھولوں کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ خادم حسین رضوی اور اشرف جلالی کو ان کی خدمات جلیلہ اورگندی گالیوں کے عوض کسی تمغے کا اعلان بھی ہوجائے تو کیا حرج ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے تو یہ کہہ کر اپنے آپ کو محفوظ کرلیا کہ شاید میں مارا جاؤں یا مجھے لاپتا کردیا جائے لیکن ان جملوں نے ان ہزاروں خاندانوں کے زخم ہرے کردیے جو بڑی بے بسی کے ساتھ اپنے دل کے ٹکڑوں کی راہ تک رہے ہیں۔ انتظار کرتے کرتے جن کی آنکھیں پتھر ہوگئی ہیں۔
خدا کرے وہ کسی روز گھر پہنچ جائیں
کہ گھر سے روز جو گھر کے لیے نکلتے ہیں
(برائے ایس ایم ایس: 03343438802)