شاہ زیب قتل، کس سے منصفی چاہیں؟

515

عدالت عالیہ سندھ نے نوجوان طالب علم شاہ زیب کے قتل کے مشہور مقدمے میں ملزمان شاہ رخ جتوئی اور دیگر کی سزاؤں میں سے دہشت گردی کی دفعات ختم کردی ہیں اور ماتحت عدالت کو حکم دیا ہے کہ معاملے کی از سر نو سماعت کرتے ہوئے قتل کے محرکات کا جائزہ لیا جائے۔ شاہ زیب کو 25دسمبر 2012ء کو ڈیفنس کے علاقے میں قتل کیا گیا تھا۔ اس وقت جو تفصیلات سامنے آئی تھیں ان کے مطابق ایک با اثر وڈیرے کا بگڑا ہوا سپوت شاہ رخ جتوئی اپنے اثر رسوخ اور باپ کی طاقت کے نشے میں چور شاہ زیب کی بہن کو چھیڑ رہا تھا۔ منع کرنے پر اس نے اپنے دوستوں کی مدد سے شاہزیب کی گاڑی پر فائرنگ کر کے نوجوان کو قتل کردیا۔ اس کے دوست بھی سندھ کے بڑے اور بااثر گھرانوں کی بگڑی ہوئی اولاد ہیں ۔ عدالت نے قتل کے محرکات کا جائزہ لینے کا حکم دیا ہے۔ گویا 5سال میں اب تک محرکات کا جائزہ ہی نہیں لیا گیا جب کہ یہ بارہا سامنے آچکے ہیں۔ یہ کوئی حادثاتی یا قتل خطا نہیں بلکہ ٹھنڈے دماغ سے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کیا گیا قتل عمد ہے۔ قاتل کو یقین تھا کہ اس کا کچھ نہیں بگڑے گا اور شاید ایسا ہی ہونے جارہا ہے۔ شاہ رخ جتوئی اپنے باپ کے تعلقات کو کام میں لاتے ہوئے فرضی نام سے دبئی فرار ہوگیا تھا جہاں سے اسے گرفتار کر کے لایا گیا اور لوگوں کویاد ہوگا کہ وہ عدالت میں پیشی کے موقع پر بھی فتح کا نشان بنا رہا تھا اور جتوئی اور تالپور خاندان کی پشت پناہی اور عدالتی نظام کی خامیوں کی وجہ سے اسے یقین تھا کہ اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اس کے دبئی فرار میں جس جس نے تعاون کیا ان کی گرفت اب تک نہیں ہوسکی۔ اس نے کیسے نام بدل کر پاسپورٹ اور شناختی کارڈ حاصل کیا اس کی بھی تحقیق ہونی چاہیے تھی۔ لیکن شاید ہر ایک کے منہ بھاری رقم سے بند کردیے گئے۔ شاہ رخ جتوئی کی اس وحشت اور درندگی کی ذمے داری اس کے باپ پر بھی عاید ہوتی ہے جس نے شاید ہر قدم پر اپنے لاڈلے کی حوصلہ افزائی کی ہو۔ اطلاعات کے مطابق یہ قاتل جیل میں بھی عیش کرتا رہاہے اور اسے ہر طرح کی سہولتیں فراہم کی جاتی رہی ہیں ۔ اس کے پسند کے کھانے باہر سے آتے تھے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ خبر کے مطابق وہ جیل سے باہر بھی چلا جاتا تھا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس کی سہولت پیپلز پارٹی کے موجودہ شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو بھی حاصل رہی جو جیل میں ہوتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کی سالگرہ میں شرکت کے لیے ٹہلتے ہوئے باہر چلے جاتے تھے۔ کئی بدنام مجرم جن کو کسی خونخوار تنظیم کی پشت پناہی حاصل رہی وہ بھی جیل سے باہر آتے جاتے رہتے تھے اور جیل کے اندر بھی عیش کرتے تھے۔ آج بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔ پیسا پھینک کر کچھ بھی کرایا جاسکتا ہے۔ جیل کا عملہ خطرناک مجرموں کے باہر موجود ساتھیوں سے خوف زدہ بھی رہتے ہیں اور پیسے کا لالچ بھی ہوتا ہے۔ شاہ رخ جتوئی بھی کئی بدمعاشوں کی طرح بیماری کے بہانے اس وقت جناح اسپتال میں ہے۔ وہ سیاست دان نہیں لیکن جتوئی خاندان تو سیاست میں ہے۔ اب یہ دستور بن گیا ہے کہ جس کے خلاف مقدمہ چل رہا ہو وہ جا کر اسپتال میں لیٹ جاتا ہے۔ ایک عام اور غریب مجرم یا ملزم کو ایسی سہولتیں کہاں حاصل ہیں ۔ شاہ زیب کے قتل کے عوض شاہ رخ جتوئی کے باپ نے خزانے کے منہ کھول دیے اور دیت میں 27کروڑ روپے دبئی پہنچائے گئے، ڈیفنس میں 5سو گز کا بنگلا اور آسٹریلیا میں ایک فلیٹ۔ اتنی بھاری دیت کے بدلے مقتول کے ماں باپ نے اپنے جوان بیٹے کا خون بیچ دیا جب کہ ان کا اصرار تھا کہ ہم دیت نہیں لیں گے، ہمیں قاتل چاہیے۔ لیکن دیت کی رقم بھی تو بڑی ہے۔ اس سے کم رقم میں تو حکومت پاکستان نے لاہور میں اپنے دو شہریوں کے امریکی قاتل ریمنڈ ڈیوس کو چھوڑ دیا تھا اور طرفہ تماشا ہے کہ حکمرانوں نے دیت کی رقم بھی خود ادا کی تھی۔ گویا یہ عوام کی رقم تھی۔ شاہ رخ جتوئی اور اس کے ساتھیوں کی پیروی پیپلز پارٹی کے نامور وکیل فاروق ایچ نائیک کررہے ہیں جن کی دلیل ہے کہ مجرموں کی عمر 18سال سے کم ہے اور قانوناً یہ نابالغ ہیں ، ان کو سزائے موت نہیں ہوسکتی۔ اگر نابالغ ہونے پر دہشت گردی کا یہ عالم ہے تو بالغ ہونے پر جانے کیا ستم ڈھائیں گے۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 2013ء میں بڑے مجرم شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور کو سزائے موت سنائی تھی اور شریک جرم سجاد تالپور اور غلام مرتضیٰ جتوئی کو عمر قید کی سزا دی تھی۔ عدالت عالیہ سندھ کے جج صلاح الدین پنہور نے فریقین کے درمیان صلح ہونے پر تبصرہ کیا کہ مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات شامل ہیں ، صلح کیسے ہوسکتی ہے۔ چنانچہ معزز جج نے دہشت گردی کی دفعات کو ختم کردیا۔ یعنی اب صلاح ہوسکتی ہے۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس مقدمے میں وکیل سرکار نے بھی ہاتھ ہلکا رکھا اور عدالت کے بجائے مجرموں کے وکیل کو تقویت پہنچائی۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اٹارنی جنرل کو بھی اسی صوبے میں رہنا ہے جہاں جتوئی اور تالپور خاندان کا راج ہے۔ اور پیسے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ’’ ستار العیوب اور قاضی الحاجات ‘‘ہے۔ حاجتیں سب ہی کے ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ پیسے کے بل پر لوگ وکیل کی جگہ جج کر لیتے ہیں ۔ پھر سرکاری وکیل پر فاروق نائیک جیسے وکیل کا رعب بھی طاری ہوگا۔ بہرحال خونخوار درندوں کو آزاد کردینے سے بڑا المیہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ اب تو یہ مجرم اپنے والدین کی طاقت اور اثر و رسوخ کا خوب اندازہ ہونے کے بعد مزید شیر ہو جائیں گے۔ مدعی اور مدعا علیہ میں صلح ہونے کے باوجود ریاست کی ذمے داریاں ختم نہیں ہو جاتیں۔ سزائے موت ختم ہونے کے بعد مجرم کبھی بھی چھوٹ سکتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ اس معاشرے پر رحم فرمائے جہاں انصاف بکتا ہو۔ اب کس سے منصفی چاہیں ؟