تحریک لبیک میں پھوٹ

472

ابھی تک تو حکمران جماعت مسلم لیگ ن میں پھوٹ پڑنے کی باتیں ہورہی تھیں اور فیض آباد دھرنے کے حوالے سے ن لیگ کے کئی وزرا اور ارکان اسمبلی اپنے استعفے ہاتھ میں لیے پھررہے تھے لیکن اب خود دھرنے والوں میں پھوٹ پڑگئی ہے اور اب اس پر جھگڑا ہورہا ہے کہ تحریک لبیک کا قائد کون ہے۔ تحفظ ناموس رسالت کے علمبردار اس پر لڑ پڑے ہیں کہ تحریک کا چیئرمین کون ہے۔ ڈاکٹر اشرف جلالی بھی چیئرمین ہونے کے دعویدار ہیں اور ان کا کہناہے کہ خادم حسین رضوی نے خود ان کو چیئرمین بنایا تھا اور اب وہ لاہور میں پنجاب اسمبلی کے باہر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک اور نام صاحبزادہ ضیا اﷲ قادری کا سامنے آیا ہے جنہوں نے گزشتہ بدھ کو لاہور میں بطور چیئرمین تحریک لبیک مرکزی مجلس عاملہ، مجلس شوریٰ اور مرکزی رہنماؤں کے اجلاس کی صدارت کی اور اعلامیے میں خادم حسین رضوی سے اعلان جنگ کردیا اور اشرف جلال کے دھرنے کی مکمل حمایت کی۔ ان کا کہناتھا کہ فیض آباد کا دھرنا ختم کرکے خادم حسین نے 21 کروڑ روپے میں شہدا کے خون کا سودا کرلیا۔ پیر افضل قادری اور خادم حسین نے حکومت سے زیادہ نقصان پہنچایا، جب حکومت گرائی جاسکتی تھی تو وزیر قانون کی برطرفی پر اکتفا کیوں کیا۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ دین فروشی کا حساب دینا ہوگا اور ختم نبوت کے غداروں کو انجام تک پہنچاکر رہیں گے۔ ان افراد نے اسلام آباد پر چڑھائی کے عزم کا اظہار بھی کیا۔ تحریک لبیک کے ’’جلالی‘‘ رہنماؤں نے فیض آباد دھرنے پر حکومت سے کیے گئے معاہدے سے بھی لا تعلقی کا اعلان کیا ہے۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے اس عمل میں سیال شریف کے گدی نشین خواجہ حمید الدین سیالوی کو مداخلت کرنی چاہیے جو کئی وزرا اور ارکان اسمبلی کے استعفے لیے بیٹھے ہیں۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ارکان اسمبلی اور وزرا میں سے کئی خواجہ حمید الدین سیالوی کے مرید ہیں اور ان کے حکم پر استعفے دینے کو تیار ہیں۔ اس حوالے سے کہا جارہاتھا کہ مسلم لیگ ن کو بڑا سیاسی دھچکا پہنچ سکتا ہے اور نواز شریف نے ان لوگوں کو منانے کی مہم کا آغاز بھی کردیا ہے مگر اب تو تحریک لبیک میں پھوٹ حکومت کے حق میں جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ تحریک لبیک پارٹ ٹو کا یہ کہناکہ پوری حکومت گرائی جاسکتی تھی ظاہر کرتا ہے کہ تحفظ ناموس رسالت سے زیادہ حکومت کا تختہ الٹنا مقصود تھا۔ جلالی تحریک رانا ثنا اﷲ کا استعفا طلب کررہی ہے اور خواجہ سیالوی کا کہناہے کہ وہ ان کے پاس آکر تجدید ایمان اور تجدید نکاح کریں۔ تجدید ایمان تو ایک مسلمان دن میں کئی بار کلمہ پڑھ کر کرتاہی رہتا ہے۔ وزارت بچانے کے لیے تجدید نکاح بھی کوئی کڑی شرط نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کچھ ختم نبوت کے نام پر ہورہاہے اور جو کچھ ہورہاہے اس سے علما بدنام ہورہے ہیں جن میں خود ساختہ علامہ اور مفتی کے ساتھ ساتھ ان پر بھی زد پڑ رہی ہے جو صحیح معنی میں عالم اور وارث رسولؐ ہیں۔ ایک عام آدمی کو یہ تمیز کرنا مشکل ہوگا کہ صحیح کون ہے اور غلط کون۔ اس اودھم میں سیکولر عناصر یقیناًبغلیں بجارہے ہوں گے جو علما کے حوالے سے دین اسلام کو بد نام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ خادم حسین دھرنے کے دوران میں فحش گالیاں دیتے رہے ہیں تو کیا وہ علامہ اور دینی رہنما کہلانے کے مستحق ہیں؟ ایک ٹی وی پروگرام میں اشرف جلالی سے بھی کہا گیا کہ جب خادم حسین گالیاں دے رہے تھے تو آپ بھی بیٹھے سر ہلارہے تھے۔ اس کی وڈیو موجود ہے لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پتا نہیں میں کس بات پر سر ہلارہاتھا۔چلیے، یہ بات مان لیتے ہیں لیکن کیا انہوں نے پاس بیٹھے ہوئے خادم حسین کو ٹوکا کہ گالیاں مت دیں، یہ توہین رسالت ہے۔ اب بھی جلالی گروپ نے شہدا کا خون بیچنے کی بات تو کی ہے لیکن گالیاں دینے والوں سے برأت کا اعلان نہیں کیا۔ گویا اس سے اتفاق ہے۔ حیرت تو ان پیروں اور عالموں پر ہوتی ہے جو سب کچھ جانتے ہوئے بھی خادم حسین کی حمایت کررہے ہیں۔