جگنو

622

ضمیر الدین
جگنو دنیا میں تقریباً ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ شمالی امریکہ ، برطانیہ، برازیل، کیوبا اور یورپ اس کے خاص مسکن ہیں۔ دنیا میں دو ہزار قسم کے جگنو پائے جاتے ہیں۔ جگنو اپنے سانس لینے کے نظام کی مدد سے روشنی پیدا کرتا ہے۔ جب جگنو سانس لیتا ہے تو سانس کی نالی کے ذریعہ ہوا اس کے اندر پائے جانے والے کیمیائی مادہ کو چھوتی ہے۔ ہوا لگتے ہی یہ مادہ شعلہ کی صورت میں جل اٹھتا ہے۔
جگنو کی اس روشنی کے کئی اسباب بیان کیے گئے ہیں لیکن جس سبب پر اکثر ماہرین متفق ہیں وہ یہ ہے کہ جگنو کی روشنی ایک حفاظتی قوت ہے جو اس کی کیڑے مکوڑے کھانے والے جانوروں سے حفاظت کرتی ہے۔ اگر ہم جگنو کو ہاتھ میں پکڑ لیں تو ہمارا ہاتھ نہیں جلتا کیونکہ جگنو کی روشنی سرد ہوتی ہے۔
جگنو دن بھر بدبودار پتوں، گیلی گھاس اور فصلوں میں چھپا رہتا ہے اور رات کے وقت باہر نکلتا ہے۔ نمدار جگہوں، باغوں اور لہلہاتے سبزہ زاروں میں عام ملتا ہے۔ جھیل ، ندی اور دریا کے کنارے اس کی مرغوب ترین جگہیں ہیں۔ گوشت کھانے کا رسیا ہے۔ اس کی خوراک گھونگھوں اور چھوٹے کیڑوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ آپ حیران ہوں گے کہ جگنو اپنے جسم سے کئی بڑے گھونگھے کو کس طرح کھاتا ہے۔ سائنس دانوں کے تجربات اور مشاہدات سے ثابت ہو چکا ہے کہ جگنو اپنے شکار کو کھاتا نہیں بلکہ پیتا ہے۔ جگنو کے منہ پر چمٹے نما دو اعضاء ہوتے ہیں۔ ان اعضاء کی مدد سے وہ شکار کے جسم میں ایک لیس دار مادہ داخل کرتا ہے۔ یہ مادّہ فوراً کیڑے مکوڑے یا گھونگھے کے گوشت کو مائع میں تبدیل کرتا ہے۔ اب جگنو اپنی ان نلکیوں کے ذریعہ اس مائع کو پی لیتا ہے۔
جگنو کی ٹانگیں چھوٹی اور تعداد میں چھ ہوتی ہیں لیکن جگنو ٹانگوں کی مدد سے درخت پر نہیں چڑھ سکتا۔ قدرت نے اسے ایک عجیب و غریب عضو سے نوازا ہے جسے سائنس دان انگلیوں کا گچھا کہتے ہیں۔ یہ سفید عضو اس کی ٹانگوں کے نیچے ہوتا ہے۔ یہ انگلیاں لچکدار ہوتی ہیں اور بوقت ضرورت انہیں ہر طرف موڑا جا سکتا ہے۔ یہ عضو ایک لیس دار مادہ خارج کرتا ہے جس کی مدد سے جگنو دیوار یا درخت کی سطح سے چپک جاتا ہے اور آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگتا ہے۔
عام طور پر جگنو کی لمبائی نصف انچ سے زیادہ نہیں ہوتی۔ البتہ جنوبی امریکہ میں ایک ایسا جگنو پایا جاتا ہی جو تین انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ اس جگنو کے جسم سے بیک وقت سرخ اور سبز روشنیاں نکلتی ہیں۔ سرخ روشنی سر کی جانب سے اور سبز روشنی دم کے نیچے سے پیدا ہوتی ہے۔ اندازہ لگایا گیا ہے اگر کسی بوتل میں ایسے دس جگنو ڈال دیئے جائیں تو یہ بوتل رات کے وقت ٹیبل لیمپ کا کام دے سکتی ہے۔
لمبائی کے اعتبار سے برازیل کا جگنو دوسرے درجہ پر ہے۔ یہ دو انچ تک لمبا ہوتا ہے۔ تاریک کمرے میں ایک جگنو کو کتاب کی سطر کے ساتھ ساتھ گھما کر انسان باآسانی مطالعہ کر سکتا ہے۔ اس جگنو کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ تاریکی میں اس کے انڈے بھی چمکتے ہیں۔
زمانہ قدیم میں لوگ راتوں کو سفر کے دوران جگنو کی روشنی سے مدد لیتے تھے۔ کچھ لوگ بید کی بنی ہوئی ٹوکریوں میں بہت سے جگنؤں کو بند کر لیتے تھے اور دورانِ سفر انہیں ساتھ رکھتے تھے اور کچھ لوگ جگنؤں کو پکڑ کر دھاگے کی مدد سے ہاتھ پاؤں کے ساتھ باندھ لیتے تھے تاکہ جنگل میں سفر کرتے وقت ان ننھے منے چراغوں سے اپنا راستہ تلاش کرسکیں۔
جنوبی اور وسطی امریکہ میں خواتین اپنی دلکشی دوبالا کرنے کے لیے بھاری داموں پر جگنو خریدتی ہیں اور انہیں دھاگے کی مدد سے باندھ کر اپنے بالوں میں سجا لیتی ہیں۔رات کے وقت یہ جگنو اس طرح چمکتے ہیں جیسے بالوں میں ہیرے جواہرات جڑے ہوں۔