خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد

446

(سانحہ مشرقی پاکستان)
شہناز کوثر
پرنسپل جامعہ المحصنات اسلام آباد
آج ہر طرف سے درس خود فراموشی ہی مل رہا ہے تاکہ ہم بھول جائیں ہم کیا تھے کیا ہو گئے اور کیوں ہو گئے جو قومیں اپنے ماضی کو بھول جاتی ہیں ان کامستقبل دلخراش اور مخدوش ہوجاتا ہے (جیسے آج کل ہو رہا ہے) زندہ قومیں تاریخ سے سبق سیکھتی ہیں اپنے تجربات کو مستقبل کی تعمیر کے لیے بنیاد بناتی ہیں شکست اگرچہ بڑا تلخ تجربہ ہے لیکن قوموں کی تاریخ سے ہمیںپتہ چلتا ہے کہ یہی ایک شکست ان کے لیے بڑی فتح کاپیش خیمہ بن گئی اور وہ قومیں پہلے سے زیادہ مضبوط اور معذز بن کر ابھریں ہماری تاریخ میں بے شمار ایسے المیے اوراندھیرے ہیں جن پر قوم خون کے آنسو بہا سکتی ہے لیکن شاید ہی کوئی المیہ اتنا شرمناک اور کرب ا نگیز ہوگا جتنے کرب انگیز ا لمیے ۱۹۷۱ ء میں جنم لیے دس لاکھ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا لاکھوں گھروں کو لوٹ لیا گیا اور ستم کے ماروں کو یہ حق ہی نہیں دیا گیا کہ وہ اپنے لٹ جانے کے اسباب جان سکیں ۔مولانا مودودی کے مطابق سقوط ڈھاکا سقوط غرناطہ کے بعدمسلمانوں کے لیے سب سے بڑ احادثہ تھا ۔وہ ڈھاکا جو مسجدوں کاشہر کہلاتا تھا وہ ڈھاکا جو پاکستان کا دارالحکومت تھا وہ ڈھاکا جو مسلم لیگ کی جائے پیدائش تھا، وہ ڈھاکا جو تحریک پاکستان کے ہر اول دستے کا ہیڈ کوارٹر تھا۔۔۔، وہ ڈھاکا اس دن ہمیشہ کے لئے ڈوب گیا جب آ ل انڈیا ریڈیو سے یہ اعلان ہورہا تھا کہ محمود غزنوی کے جانشینوں اور اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج نے اندراگاندھی کی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں ۔یہ سانحہ ہماری ملی تاریخ کے دردناک ترین حادثات میںسے ہے نہ صرف ملک دو لخت ہوابلکہ ملت کا فخرو افتحار بھی ختم ہوگیا۔سقوط ڈھاکا پر اندر اگاندھی نے اپنی مسرت کا اظہار ان الفاظ میں کیاتھا کہ ایک ہزار سالہ تاریخ کا انتقام چکا دیا گیاہے اور یہ کہ دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال کے پانیوں میں غرق کر دیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ کہ قائد اعظم کے بعد ملک کو کوئی مخلص حکمران نہ مل سکا ۔عوام جن حکمرانوںکو مسیحا سمجھ کر پیچھے چلی وہ اصل میں میر جعفر اور میر صادق نکلے ۔ان کا مطمع نظرہوس جاہ اور حصول اقتدار ہی تھا۔ وہ اس نظریے سے ہی منحرف ہو گئے جس کی بنیاد پر پاکستان کی عمارت استوار تھی ۔۱۹۴۹ سے ۱۹۷۱ تک جاگیردارانہ سیاست اور وڈیرہ شاہی کی سر پرستی کی گئی ان جاگیرداروں کا نہ صرف زمینوں پر قبضہ ہے بلکہ لوگوں کے سراورووٹ بھی ان کے قبضہ میںہیں حکمرانوں کی غلط پالیسیوں نے مشرقی پاکستان کے لوگوں کو باور کروایا کہ مغربی پاکستان سے متعلق کویٔ آدمی یا اردو زبان بولنے والا ہر غیر بنگالی بنگالیوں کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے کیا وجہ تھی کہ تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کرنے والے بنگالیوں نے علیحدگی ہی میں نجات سمجھی ظاہری اسباب تو بہت ہیں تحریک بنگلہ کی بنیاد تو اسی وقت رکھ دی گیٔ تھی جب دونوں حصوں کے درمیان ایک ہزار میل کا جغرافیایٔ فاصلہ رکھاگیااوراس پرمستزادیہ کہ دونوں کے درمیان دشمن ریاست حائل تھی ۔قائداعظم ؒ کی دور رس نگاہ نے اس جغرافیایٔ فاصلے کے منفی نتایٔج کو بھانپتے ہوئے دونوںحصوں کے درمیان ایک کوریڈور کا مطالبہ کیا تھا جس کو انگریزوں اور ہندوئوں کی گٹھ جوڑ کے سبب کوئی اہمیت نہ دی گئی ۔آنے والے وقت نے اس کو ثابت کردیا جن مسائل کو زیادہ ہوا دی گئی ان میں زبان کا مسئلہ سر فہرست ہے۔ 21مارچ1971ء کوجب ارباب اقتدار نے مشرقی پاکستان کا دورہ کرتے ہوئے ڈھاکا میں یہ اعلان کیا کہ اب پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی تو بنگالی نوجوانوں نے اس کو اپنی حق تلفی سمجھا کہ یہ انہیں اپنی مادری زبان سے محروم کرنے کی سازش ہے ۔کیونکہ مشرقی پاکستان کے لوگ اردو کو مغربی پاکستان کی زبان سمجھتے تھے اور ا س کے بعد پھرا سے اکثر یتی صوبے پر لسانی اور ثقافتی یلغار قرار دیتے ہوئے احتجاجی جلسے اور جلوس منعقد ہوئے ۔ لیکن اس کی طرف اقتدار کے نشہ میں گرفتار حکمرانوں نے توجہ نہ دی اور اس زہر کا پتہ نہ لگایا جو اندر ہی اندر اپنا کام دکھا رہا تھا۔ دوسری طرف سرحد پار کی سازشوں نے حقوق کے حصول کے نام پر تعصب کو ہوا دی۔مشرقی پاکستان میں 75 فیصد سے زیادہ ہندئووں کے تعلیمی ادارے تھے ان میں اسٹاف ہندو ہوتا اور اپنی مرضی کا نصاب پڑھاتے پرائمری سطح پر کوئی ادارہ حکومت کی سرپرستی میں نہیں تھا حکومت صرف فنڈز دیتی تھی نوجوانوں کی تربیت کس طرح کی جارہی کون سا لٹریچر مشرقی پاکستان میں بھیجا جارہا ہے اوردوسری طرف بنگلہ زبان میں اسلامی لٹریچر کا فقدان تھا تمام ہندو لٹریچر نوجوانوں کو پڑھایا جاتا تھا ڈھاکا یونیورسٹی کے پروفیسروں نے جہاں تدریسی سٹاف ۹۰ فیصدہندو تھا نہایت ہوشیاری سے طلبہ کو ذہن نشین کروانا شروع کیا کہ غیر بنگالیوں کا مقصد مشرقی پاکستان کو اپنی نوآبادی بنانا ہے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے علمبردار چھ نکات پر مشتمل جو عوامی لیگ کا منشور بنے وہ انہی پروفیسروں نے وضع کیے تھے پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ کے دونوں حصوںکے اتحاد کے لیے پل کی حیثیت رکھتی تھی تین دھڑوں میں تقسیم ہوگئی [خواجہ نظام الدین ؛ فضل الحق ؛ سہروردی ] سہروردی دھڑے کا باغی گروپ پہلے عوامی مسلم لیگ کہلایا اور پھر ہندووں کے کہنے پر عوامی لیگ بن گیا مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کا بننا کانگریس کا نیا جنم تھا یہ لیگ ہندووں ہی کے زیر اثر اور سرمائے سے پنپتی رہی اور عوامی لیگ کو انتخاب میں جتوانے کے لئے کثیر سرمایہ متمول ہندووں نے فراہم کیا تھا ۔
مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان غلط فہمیوں، دوریوں اور پھر بلآخر علیحدگی میں ایک اہم کردار معاشی محرومیاں اور اقتصادی عدم مساوات تھی جن کی ذمہ داری ایک حد تک مغربی پاکستان پر عائد ہوتی تھی۔تنہا مغربی پاکستان ہی اس پسماندگی کا ذمہ د ار ا نہ تھا ۔تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے بھارت زیادہ ذمہ دار تھا۔ مشرقی پاکستان کی ۸۰ فیصد قومی دولت آزادی کے وقت ہندووں کے ہاتھ میں تھی۔ شہری علاقوں میں جائیداداور صنعتوں پر غیرمسلم قبض تھے وہ انتہائی ہوشیاری سے کثیر دولت بھارت بھیجتے رہے۔ معاشی طور پر استحصال کے لیے جھوٹے اعدادو شمار جمع کر کے اسے وسیع سطح پر پھیلا دیا گیا ۔ محب وطن لوگوں نے جب اس کی طرف توجہ دلائی تو اس پر کوئی دھیان نہ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان سے جب بھی سیاسی اور معاشی حقوق کے لیے آواز بلند کی گئی تو ان پر غداری اور ملک دشمنی کا الزام لگا دیا جاتا۔ حکومتِ وقت نے جہاں اور بہت سی غلطیاں کیں ان میں سے ایک بیورکریسی کو ملک کی تقدیر اور سیاہ و سفید کا مالک بنادینا تھا جس نے شروع سے آخر تک منفی کردار ادا کیا۔سیاسی حماقتوں میں مخلوط انتخاب، خواجہ ناظم الدین سے ذ لت آمیز سلوک، جنرل یحیٰی کے سپرد اقتدار کرنا اور بغیر مشاورت مشرقی پاکستان میں فوجی کاروائی کرنا وغیرہ شامل تھے۔شروع سے لے کر آخر تک حکمرانوں کا کردارشرمناک ہی رہا ۔ جس کا نتیجہ مشرقی پوربو پاکستان میں بدترین فسادات کی صورت میں نکلا۔لاکھوں بے گناہ انسانوں کو محض اختلاف زبان یا پاکستان سے محبت کے گناہ کے پاداش میں سنگینیوں سے کچلا گیا ، زندہ جلایا گیا چشم دید واقعات جو دنیا بھر میںشائع ہوئے ان کے مطابق عصمت دری ، آنکھیں نکالناقتل سے پہلے اعضاء کاٹنا پوری بستیوں کو انسانوں سمیت نذر آتش کرنا یہ سب ظلم وستم اور تخریب کاری مکتی باہنی نے کی ۔ جس کی تربیت اور جنگی کاروائیوں کا اہتمام بھارت کرتا رہا لیکن بھارت نے بڑی عیاری اور مکاری سے کام لیتے ہوئے پوری دنیا میں ان کاروائیوں کو پاکستانی فوج کے سرمنڈھ دیا ۔اصل کام سیاسی محاذ پر کرنے کا تھا لیکن پاکستان بین الاقوامی ،سیاسی ،اخلاقی محاذ پر شکست کھا گیا۔دنیا بھر میں پاکستانی موقف کو غلط قرار دیا گیا اور بنگلہ دیش کی باغی تحریک کو مظلوم اور حق بجانب ٹھہرا دیا گیا ۔ اس سارے تناظر میں مفاد کی سیاست بھی عروج پر تھی۔یحیی خان کو اپنی عیاشی اور جام شراب سے فرصت نہیں تھی اور بھٹو کو مشرقی پاکستان کی ناگزیر علیحدگی میں اپنے اقتدار کا خواب پورا ہوتا نظر آرہا تھا ۔ اور پھر۔۔۔پاکستان جنگ ہار بیٹھا ۔ایک لاکھ افواج پاکستان کا ہتھیار پھینک کر مغربی پاکستان لوٹ جانا یہی نہیں بلکہ ان محسنوں کو جو قائد کے متحدہ پاکستان کا جھنڈا لہرا رہے تھے بے یار ومددگار انھیں خوں آشام درندوں میں چھوڑدیا جن کا لہو اس وقت بھی اور آج بھی یہاں بھی اور وہاں بھی اجنبی ٹھہرا۔ جن کی نسلیں آج بھی بنگلہ دیش میں انتہائی مخدوش حالات میں اس انتظار میں بیٹھی ہیں شاید پاکستان انہیں اپنا کر اس ملک کی شہریت دے دے جس کے لئے انہوں نے اپنا سب کچھ وار دیا۔
۴۶ سال گزر گئے اس زخم کو لگے ہوئے جنھوں نے اس ملک کو یہ زخم لگایا اللہ تعالی نے انکو اور انکی نسلوں کو عبرت ناک انجام سے دو چار کیا۔لیکن بحثیت قوم ہم نے کوئی سبق نہیں سیکھا وہی لسانی ،مذہبی ، علاقائی تعصب ، ظلم و زیادتی ، بد عنوانی ، رشوت کرپشن ، حرام خوری ذخیرہ اندوزی ، نا انصافی، معاشی نا ہمواری ، سیاسی انتشار ، ہر روز نئے فتنے کھڑے کرنا جلسے جلوسوں میں پر فریب متعصبانہ اور فرقہ ورانہ نعروں کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف بنانا ۔۔۔یہ سب ہمیں پھر تباہی کے دہانے کی طرف لے جائے گا ۔ ہم نے اپنے اللہ سے یہ عہد کیا تھا کہ اس ملک اللہ کے نظام کو نافذ کریں گے اور اس کو اسلام کا قلعہ بنائیں گے لیکن ہم اس عہد سے پھر گئے اگر اسلام کا رشتہ مضبوط کیا جاتا اور اس رسی کو پاکستان کے دونوں بازوں تھامے رہتے تو نہ لسانی تعصبات پیدا ہوتے نہ بھارت کی سازش کامیاب ہوتی ۔آج بھی اگر ہماری بقا اور نجات ہے تو اسی اسلامی نظام کے تحت اتحاد و یگانگت میں ہے۔ورنہ تمھاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں ۔۔۔۔