صبر اختیار کرنا بہادری کی علامت ہے

282

افروز عنایت
شادی کے کچھ ہی دنوں میں ریحانہ پر یہ بات واضح ہو گئی کہ سلیم اور اس کے گھر والے معمولی معمولی بات کو لے کر بحث کرنے اور نکتہ چینی کرنے کے عادی ہیں اچھی بات بھی اس کے منہ سے نکلتی تو فوراً پکڑتے اور اس میں سے دس مطلب نکال کر اس سے بحث شروع کر دیتے یہ صورت حال اس کے لیے بڑی تکلیف دہ تھی کیونکہ اس کا تعلق جس گھرانے سے تھا وہاں سب پر امن طریقے سے ایک دوسرے کی سنتے اور ایک دوسرے کی رائے کو اہمیت دیتے تھے کوئی بات نا پسند ہونے کے باوجود بحث سے گریز کرتے اسی لیے ریحانہ پر امن طریقے سے گزارنے کی عادی تھی لہٰذا سسرال آکر اس سخت کوفت کا سامنا کرنا پڑا قصور نہ ہونے کے باوجود اس طرح بحث کی جاتی کہ آخر اسے ہی مورد الزام ٹہرایا جاتا وہ بے بس ہو کر خاموش ہو جاتی ایک آدھ مرتبہ اس کا جی چاہا کہ دوسروں کو نہ سہی کم از کم شوہر کو تو جواب دے سکتی ہوں لیکن پھر اسے ماضی کا وہ واقعہ یاد آجاتا جب ان کے پڑوس میں رہنے والی خاتون کے ساتھ ایسا ہی معاملہ تھا لیکن وہ شوہر کے ساتھ خود بھی بحث کرتی رہتی مسلسل جواب دینے سے بعض اوقات سنگین صورت حال سامنے آتی نہ صرف اس کے اپنے بچے بلکہ آس پڑوس کے لوگوں کو بھی کوفت ہوئی اسے بارہا لوگوں نے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ تڑاک سے جواب دیتی کہ واہ یہ بھی کوئی بات ہوتی کہ میں صرف سنتی رہوں اس کی لونڈی ہو کہ وہ تابڑ توڑ مجھ پر حملے کرے اور میں گونگی بن جائوں آخر بحث و مباحثہ اور ایک دوسرے پر نکتہ چینی کرنے کا انجام یہ ہوا کہ وہ بھائیوں کے در پر جا بیٹھی شوہر نے کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں اسے واپس لے کر آئوں واپس خود ہی آئے اور معافی بھی مانگے یعنی ایک سیر تو دوسرا سوا سیر اور اس صورت حال میں سب سے زیادہ نقصان بچوں کو ہوا کبھی ننھیال میں تو کبھی ددھیال میں خوار ہوتے رہے ریحانہ کو اس خاتون کے واقعہ سے عبرت حاصل ہوئی اسی لیے وہ گھر والوں اور سلیم سے بحث کرنے سے کتراتی بلکہ سلیم کی دوسری خوبیاں تلاش کرنے لگی جس کی بدولت وہ اس خامی کو برداشت کرسکے جلد ہی اسے ایسا موقع مل گیا پہلے بچے کی پیدائش پر اس نے نوٹ کیا کہ وہ شخص اتنا برا نہیں اس کی صحت کا خیال بھی رکھ رہا ہے خصوصاً اپنے بچے سے نہ صرف بے پناہ پیار کرتا ہے بلکہ خیال بھی رکھتا ہے اس چیز نے اسے بڑی تقویت دی ویسے بھی اب وہ بہت مصروف ہو گئی تھی شوہر کی بے پناہ خدمت گھر والوں کا خیال رکھنے اور بچوں کی دیکھ بھال رکھنے سے شوہر کو بھی کبھی کبھار بڑی شرمندگی محسوس ہوتی کہ وہ اس عورت کو مسلسل ’’زچ‘‘ کرتا رہتا ہے جبکہ وہ پلٹ کر جواب تو دینا الگ بات بلکہ ہنس کر موضوع کو پلٹنے کی کوشش کرتی یا وہاں سے ہٹ جاتی ہے۔ ریحانہ نے شادی کے بعد سات آٹھ سال تو بڑی تکلیف میں گزارے لیکن پھر وہ اس صورت حال کی عادی ہو گئی بلکہ اس کے اس حکمت عملی سے سلیم کی عادت میں بھی کافی حد تک کمی آگئی اس طرح ریحانہ اپنی سمجھ داری اور صبرو درگزر کی عادت کے بدولت اپنی اور گھرہستی کو بچانے میں کامیاب ہو گئی۔
٭٭٭
دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ بیکار کی بحث کرکے سامنے والے سے الجھ پڑتے ہیں اگر سامنے والا بھی اسی قسم کی عادت کا مالک ہوا تو بات بڑھ جاتی ہے اور نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے یہ صورت حال صرف شوہر اور بیوی کے درمیان ہی نہیں پائی جاتی بلکہ اس قسم کے لوگ کہیں بھی کسی جگہ بھی معاملات الجھا دیتے ہیں چاہے آفس و دفتر ہو گھر ہو یا سفر میں ہو کچھ تو دفتر میں اپنے کو لیگ اور باس کے ساتھ الجھ پڑتے ہیں اسی صورت حال کی وجہ سے ایے لوگ کہیں ایک جگہ ٹک کر ملازمت بھی نہیںکر پاتے اپنے کولیگ اور باس کے ساتھ خوشگوار تعلقات استوار کرنے سے قاصر رہتے ہیں یہاں تک کہ میں نے حج کی ادائیگی کے دوران بھی کچھ خواتین کو اسی بحث اور نکتہ چینی کی وجہ سے حجاج کرام سے الجھتے دیکھا بار ہا ہمارے ساتھ بھی ایسے لوگوں کا واسطہ پڑا جہاں صبر لازمی تھا اس عادت کا سب سے زیادہ نقصان رشتوں کے مابین ہوتا ہے اسی بحث و مباحثہ کی وجہ سے رشتوں اور ناطوں میں دراڑیں آجاتی ہیں دوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اس لیے ایسے موقعوں پر کسی ایک کو خاموش رہنا پڑتا ہے جسے رشتوں سے پیار ہو یہ خوبی اس کی بزدلی یا کمزوری نہیں بلکہ بہادری ہے اس طرح کسی ایک کی حکمت عملی اور صبر سمجھ داری رشتوں کو بچانے کے لیے ضروری ہے جیسا کہ مذکورہ بالا واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے خصوصاً آج کل دیکھا گیا ہے کہ بہوئیں اپنی ساسوں سے الجھتی رہتی ہیں یا پھر ساسیں بہوئوں سے، جواب پر جواب دینا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ جس سے گھر کا سکون برباد ہوتا ہے۔ ایک خاتون نے مجھے بتایا کہ میری بہو مسلسل نہ صرف شوہر بلکہ ہم ساس سسر سے بھی معمولی بات کو لے کر الجھ پڑی ہے اور مسلسل بحث کرتی رہتی ہے اس کی اس عادت سے خاص طور پر میرا بیٹا بڑا دل برداشتہ ہو جاتا ہے اور کبھی کبھار تو وہ بھی الجھ پڑتا ہے یہ بڑا نازک وقت ہوتا ہے مجھے بڑا ڈرلگتا ہے کہ کہیں میرا بیٹا کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اور زندگی بھر کا بچھتاوا نہ رہ جائے سب کے لیے ایک بچی نے بتایا کہ میری ساس کی عادت ہے کہ معمولی بات لے کر سامنے والے پر نکتہ چینی کرتی رہتی ہے یہاں تک کہ ماسی کام والی بھی اس سے نہیں بچتی جسے پھر ہم دیورانیوں کو منانا پڑتا ہے ماسیاں اکثر کہتی ہیں تم لوگ تو بہوش ہو تمہارا تو مرنا جینا سب اس کے ساتھ ہے ’’اسے‘‘ برداشت کرنا تمہارے لیے ضروری ہے۔ ہمارے لیے نہیں۔ اس بچی نے ہنس کر بتایا کہ ایسی صورت حال میں معاملہ سنبھالنا ہمارے لیے بڑا مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ ہمیں یہ ڈر رہتا ہے کہ اگر یہ کام چھوڑ کر چلی گئی تو پھر دوسری تلاش کرنا ’’مشکل کام‘‘ ہے غرض کہ ایسی عادتوں کے مالک ہر جگہ مسائل کھڑا کر دیتے ہیں مجھے اپنے بچپن کے زمانے کا ایک واقعہ یاد آگیا کہ امی کو ایک خاتون نے بتایا کہ ان کے خاندان میں ایک شخص ایسا ہے جو ہر خوشی و غم کے موقع پر ضرور کسی نہ کسی بات پر کسی نہ کسی بندے سے الجھ جاتا ہے اور بحث کے بعد خود ہی ناراض ہو کر چلا جاتا ہے اسے منانا ’’جوئے شیر‘‘ لانے کے برابر ہے اسی لیے سارے خاندان کے لوگ اس سے بات کرتے ہوئے بھی ڈرتے ہیں۔ غرض کہ ایسے لوگوں سے لوگ کتراتے ہیں اور نا پسند کرتے ہیں ہمیں اپنے آس پاس کے لوگوں سے چاہے وہ ہمارے رشتہ دار ہوں، پڑوسی ہوں، کولیگ وغیرہ ہوں ان سے اچھے تعلقات رکھنے کے لیے اور ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے بیکار کی بحث، نکتہ چینی، کسی کے کام میں کیڑے نکالنے یا عیب نکالنے سے پرہیز کرنی چاہیے اگر خدا نخواستہ کسی ایسے شخص سے واسطہ پڑ جائے تو اسے اپنے لیے ایک آزمائش سمجھ کر درگزر اور صبر سے کام لینا چاہیے یقینا یہ آپ کی ہار نہیں بلکہ جیت ہو گی۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’اپنے مسلمان بھائی سے (خوامخواہٌ) بحث نہ کیا کرو اور نہ ہی اس سے ایسی دل لگی کرو (کہ اس کو ناگوار گزرے) اور نہ اس سے ایسا وعدہ کرو جس کو تم پورا نہ کر سکو‘‘